طیارہ حادثہ : پائلٹ ، معاون کے ذہنوں پر کرونا سوار تھا، 260کپتانوں کی ڈگریاں ، لائسنس جعلی: غلام سرور

Jun 25, 2020

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی/ نمائندہ نوائے وقت) وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کراچی طیارہ حادثہ کی 26 نکاتی عبوری رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پائلٹ اور اے ٹی سی نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا۔ ابتدائی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں جس کے مطابق طیارہ پرواز کے لیے سو فیصد فٹ تھا، بد قسمت طیارے320 میں کسی قسم کی فنی خرابی نہیں تھی۔ طیارہ حادثہ میں 97 افراد شہید ہوئے۔ طیارہ گرنے سے جن 29 گھروں کو نقصان پہنچا ان کا ازالہ بھی جلد کریں گے۔ عدالت کو بھی ہم تمام حقائق سے متعلق آ گاہ کررہے ہیں۔ ذمہ داروں کے خلاف بلا تفریق ایکشن ہوگا۔ ہم نے چیزوں اور ملک کو ٹھیک کرنا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری نہیں کریں گے بلکہ اس کی تنظیم نو کریں گے۔ اسے ساٹھ کی دہائی والا ادارہ بنائیں گے۔ طیارہ حادثے کی رپورٹ متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردی گئی۔ غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ 22 مئی کے فضائی حادثے سے پہلے طیارے نے 6 کامیاب پروازیں کیں، بد قسمت اے 320 نے 5پروازیں لاہور، کراچی، لاہور روٹ پر کیں۔ طیارے کے پائلٹ اور معاون پائلٹ دونوں پرواز کیلئے طبی طور پر فٹ تھے۔ لینڈنگ کے لئے فائنل اپروچ کے وقت پائلٹ نے طیارے میں کسی فنی خرابی کی نشاندہی نہیں کی۔ انہوں نے پائلٹس کی بھرتیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پائلٹس کو بھی سیاسی بنیادوں پر بھرتی کروایا جاتا ہے، جو دکھ کی بات ہے، عزم ہے کہ پی آئی اے کو دوبارہ سے فعال بنایا جائے گا، سیاست دانوں کی جعلی ڈگریوں کی بات کی جاتی ہے لیکن بد قسمتی سے پی آئی اے کے چار پائلٹس کی ڈگریاں جعلی نکلی ہیں، پائلٹس کو بھرتی کرتے وقت میرٹ کو نظرانداز کیا گیا، چالیس فیصد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں، پائلٹس کے جعلی لائسنس پر کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے، پی آئی اے کی ری سٹرکچرنگ کرنی ہے، پاکستان میں مجموعی طور پہ 860 پائلٹس ہیں، پائلٹس کے امتحانات میں انکشاف ہوا کہ 260 پائلٹس نے اپنی جگہ کسی سے امتحان دلوایا، ان پائلٹس کو جعلی ڈگریاں اور جعلی لائسنس بنوا کر دئیے گئے، ایسے پائلٹس کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 54 میں سے 28 پائلٹس کو شو کاز نوٹس جاری کئے، 24 کے خلاف پرسنل ہئیرنگ کی ہے، 9 پائلٹس نے روتے روتے اعتراف کیا کہ ان سے غلطی ہوئی، انہوں نے معافی دینے کو کہا معاف کرنے والا اللہ ہے۔معاملے کو بلا تفریق آگے بڑھائیں گے، اسے سیاسی رنگ ہرگز نہ دیا جائے۔ کراچی طیارہ حادثے کے دن ہی انکوائری کمیشن تشکیل دیا، طیارہ حادثے کے 3 روز بعد فرانسیسی تفتیشی ٹیم پاکستان آ ئی، انکوائری میں سینئر پائلٹس کو بھی شامل کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ عبوری رپورٹ ایک ماہ جبکہ طیارہ حادثے کی مکمل رپورٹ تیار ہونے میں ایک سال کا وقت لگے گا ایئر بس کی ٹیم نے بھی جائے حادثہ کا دورہ کیا اور معلومات جمع کیں، صاف شفاف انکوائری ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد 12 طیارہ حادثات ہوئے، کیا ان حادثات کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا؟بدقسمتی سے یہ طیارہ حادثہ پہلا واقعہ نہیں،72 سالوں میں 12 واقعات ہوئے ہیں، ان 12واقعات کی بروقت انکوائری ہوئی اورنہ رپورٹ سامنے آئی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایئر بلو اور بھوجا ایئر طیارہ حادثہ بھی پائلٹس کی غلطی کی وجہ سے ہوا، ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو پائلٹس اور معاون پائلٹس نے نظر انداز کیا، انہوں نے کہا کہ حادثے کی ذمہ داری کریو کیبن اور ایئر ٹریفک کنٹرول کی بھی بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پائلٹس نے دوران پرواز کسی قسم کی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی، لینڈنگ گیئر کے بغیر جہاز تین بار رن وے سے ٹچ ہوا،جس سے انجن کو نقصان پہنچا، جہاز نے جب دوبارہ ٹیک آف کیا تو دونوں انجنوں کو کافی نقصان پہنچ چکا تھا۔ انکوائری بورڈ میں ائر بلیو کے دو پائلٹ جو اے تھری جہاز اڑاتے تھے انہیں شامل کیا گیا ،بین الاقوامی پائلٹ ایسوسی ایشن کو خط لکھا ایک اے تھری پائلٹ اور ٹیکنیشن بھجوایا جائے۔ شہید افراد کے اہل خانہ کو فی کس 10 لاکھ روپے دیئے گئے۔ غلام سرور نے کہا کہ دو اہم شواہد ڈیٹا ریکارڈر اور وائس ریکارڈر کے آخری الفاظ بھی میں نے سنے ہیں ،بد قسمت طیارہ فضائی پرواز کے لیے سو فیصد ٹھیک تھا ،طیارے میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں تھا 7 مئی کو اس طیارے نے پہلی پرواز کیںپانچ پروازیں لاہور کراچی ،کراچی لاہور کے لیے تھیں جبکہ ایک پرواز شارجہ کے لیے تھی پائلٹ اور معاون دونوں طبی طور پر صحت مند تھے پائلٹ نے کسی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی ،رن وے پر لینڈ کرنے کے وقت جہاز کو2ہزار 5سو فٹ کی اونچائی پر ہونا چاہیے تھا ,رن وے سے دس ناٹیکل مائیل پر لینڈنگ گیر کھولے گئے لینڈنگ سے قبل جہاز کی اونچائی 7 ہزار 200 سو فٹ تھی پائلٹ کی اس جانب توجہ مبذول کروائی گئی ،جہاز کا انجن تین بار رن وے پر رگڑیں کھاتا رہا،کہ آپ کی اونچائی زیادہ ہے لینڈ نہ کریں اور چکر لگا کر آئیں پائلٹ نے ہدایات کو نظر انداز کردیا اس کے بعد پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ اْٹھا لیا اس معاملے پر کوتاہی کنٹرول ٹاور کی بھی تھی پائلٹ نے جب جہاز دوبارہ ٹیک اوور کیا تو انجن میں خرابی پیدا ہوچکی تھی۔ پائلٹ نے آخر میں تین بار یااللہ یا اللہ یااللہ کا کہا ۔۔۔پائلٹ اور معاون دونوں کرونا پر بات کر رہے تھے۔ دونوں کے سروں پر کرونا سوار تھا پائلٹ نے جہاز آٹو لینڈنگ سے مینول لینڈنگ پر ڈالا دونوں کے خاندان کرونا سے متاثر تھے۔ سیاستدان، سرکاری اداروں میں بہت سے لوگوں کی جعلی ڈگریوں کے کیس آئے پاکستان میں ایل ٹی وی اور ایچ ٹی وی لائسنس کے لئے کسی امتحان کی ضرورت نہیں، صرف پیسے سے لائسنس مل جاتا ہے کتنے بس حادثے ہوئے، آج تک کسی ڈرائیور کو سزا نہیں ہوئی اگر کسی کے خلاف مقدمہ چلے تو وہ بری بھی ہوجاتا ہے پاکستان میں 860 پائلٹس ہیں جن میں 262 پائلٹس کی ڈگریاں جعلی تھیں ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں کہ چالیس فیصد پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں ہم نے کارروائی شروع کردی ہے، 54 میں 28 کو اظہار وجوہ کا نوٹس دیا گیا۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ہمارے دور میں پی آئی اے میںایک بھی بھرتی نہیں ہوئی ہے تاہم یہ بھرتیاں سابقہ ادوار کی ہیں اس کی بھی تحقیقات ہو رہی ہیں کل 860 ہوابازوں میں سے 262 کے امتحانات اور لائسنس مشکوک ہیں باقی کا بھی فرانزک کرایا جا رہا ہے اور جو بھی ذمہ دار ہیں اندرونی ہوں یا بیرونی ان کے گریبان پر بھی ہمارا جلد ہاتھ ہو گا پائلٹس کو بھی سیاسی بنیادوں پر بھرتی کروایا جاتا رہاہے، جودکھ کی بات ہے۔ وزیراعظم عمران خان پی آئی اے میں اصلاحات کے لئے خود بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ کراچی طیارہ حادثہ کے ذمہ داروں کا تعین بھی ہو گا اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہو گی۔ پائلٹس کے جعلی لائسنس پر کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، بعض ہوا بازوں کے امتحانات کے دن بھی مشکوک ہیں اور بعض کی ڈگریاں اور اسناد بھی جعلی ہیں۔ پالپا کے سیکرٹری جنرل عمران ناریجو نے کہا ہے کہ ملک میں طیارے حادثے روکنے کے لئے ایوی ایشن سیکٹر میں ایوی ایشن سے تعلق رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے‘ بڑے عہدوں پر غیر متعلقہ افراد تعینات ہیں‘ کراچی طیارہ حادثہ کی رپورٹ حتمی نہیں ہے اور اب بھی بہت سے سوالات باقی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ میں پائلٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ ذاتی پریشانی میں تھا اور کرونا وباء پر بھی باتیں کررہا تھا۔ ہمیں ایک بات یاد رکھنا چاہئے کہ پائلٹ بھی انسان ہیں۔

مزیدخبریں