مکرمی! وقت گزر جاتا ہے یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ ساغر صدیقی درویش شاعر تھا۔ اس سے میری پہلی ملاقات حفیظ قندھاری پریس فوٹو گرافر نے کرائی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی ایس ۔ اے رحمن میرے بہنوئی اور ممتاز براڈ کاسٹر طارق عزیز (نیلام گھر والے) کے کاموں ہیں۔ ایک دن حفیظ قندھاری تشریف لائے تو ان کے ساتھ ایک سادہ بندہ بھی تھا جس نے کالا کمبل اوڑھ رکھا تھا۔ قندھاری صاحب بولے ’’یہ میرا روحانی دوست ساغر صدیقی ہے غزل کا بہت اچھا شاعر ہے۔‘‘ میں نے ساغر صدیقی کی طرف دیکھا تو اس کی شکل میں فقیری تھی لیکن آنکھیں اداس تھیں۔ اس کی خاموشی زمانے کو ٹھوکر مار رہی تھی۔ پہلی ہی نظر میں ساغرا میرا دوست بن گیا اور ہر روز ’’چودھری اکیڈمی‘‘ پر آنے لگا جو ان دنوں چوک لوہاری گیٹ میں مسلم مسجد کے زیر سایہ تھی۔ وہ صبح سویرے آتا اور دکان کے سامنے کمبل اوڑھ کر بیٹھ جاتا۔ میں دکان کھول کر ساغر کو اندر لے آتا۔ اس دوران ساغر صدیقی سے پوچھتا کہ چائے منگوائوں؟ وہ بڑی سادگی سے کہتا ’’چودھری ناشتہ کرنا ہے۔‘‘ ناشتے والا میری دکان کے سامنے ہی بیٹھتا تھا۔ ساغر صدیقی ناشتہ کرتا اور پھر اچانک اٹھ کر کہیں چلا جاتا۔ میں نے کبھی نہیں پوچھا کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ یہ ہمارا روز کا معمول بن گیا تھا جس صبح ساغر صدیقی نہ آتا تو میں اداس ہو جاتا۔ حالانکہ ان دنوں میرے والد چودھری برکت علی نے دوستوں میں سے چچا مرزا ادیب ، چچا عارف عبدالمتین ، چچا احمد ندیم قاسمی اور ابن انشا بھی کبھی کبھی تشریف لاتے۔ بعدازاں ادیبوں کی نئی نسلوں کے لوگ ’’چودھری کیڈمی‘‘ پر آنے لگے۔ ان میں ڈاکٹر بلیغ الدین ، ضیاء ساجد ، ناصر زیدی ، اظہر جاوید ، انور جلال ، ایم اے راحت ، یونس جاوید ، زبیدہ سلطانہ ، ملک اسلم وکیل اور غلام ثقلین نقوی جیسے لوگ شامل تھے۔ یہ سب ساغر صدیقی کے فن کی تعریف کرتے اور بتاتے کہ بہت سے لوگ ساغر کی غزلیں چرا کر اپنے نام سے چھپوا لیتے ہیں۔