ہمارے ایوانِ بالا نے مودی سرکار کے پانچ اگست 2019 ء کے اقدام کے خلاف سرکاری بنچوں سے آنے والی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر کے یک گونہ اطمینان کا سانس لیا ہو گا کہ اس قرارداد کے ذریعے ہم نے بھارت کے خلاف پوائنٹ سکور کر لیا ہے۔ ہم متفقہ قرارداد کے ذریعے بھارت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی پانچ اگست 2019ء سے پہلے والی آئینی خصوصی حیثیت بحال کر دے تو عالمی برادری کو بھی ہمارے اس مطالبے میں وزن محسوس ہوا ہو گا، چنانچہ مقبوضہ کشمیر کی پانچ اگست سے پہلے والی آئینی حیثیت کی بحالی کے لیے بھارت پر عالمی دبائو بھی پڑے گا تو کشمیریوں کے حق میں کچھ نہ کچھ تو اثر پذیر ہو گا۔ مودی سرکار تو پہلے ہی ’’عالمی دبائو‘‘ میں آ کر کشمیری لیڈران کے ساتھ مشاورت کے راستے پر آچکی ہے اس لیے ہمارے ایوان بالا کی قرارداد گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کی عملی تصویر بن جائے گی۔ مگر حضور! اس قرارداد کی بنیاد پر مودی سرکار کو آئینہ دکھانے اور پوائنٹ سکور کرنے سے پہلے ذرا غور کر لیجئے کہ آیا کشمیر پر ہمارا یہی موقف ہے جو ہم نے اس قرارداد میں کئے گئے تقاضے کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگر ہم کشمیر کی پانچ اگست 2019ء سے پہلے والی آئینی پوزیشن کی بحالی کو ہی دیرینہ مسئلہ کشمیر کا حل سمجھ بیٹھے ہیں اور بھارت کو باور کرائے جا رہے ہیں کہ پانچ اگست کا آئینی اقدام واپس لینے تک اس کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات اور تجارت نہیں ہو سکتی تو مودی سرکار چاہے بظاہر پاکستان کے اس موقف اور تقاضے پر بھی اپنی ہٹ دھرمی میں کوئی نرمی نہ کرے مگر اندر سے اس کا دل بلیوں اچھل رہا ہو گا کہ ’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘۔
مودی سرکار کے لیے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا تعین کرنے والی بھارتی آئین کی دفعات 370 ، اور -35 اے کو اب بھارتی آئین میں بحال کرانا بے شک ممکن نہیں اور نہ ہی وہ اس کے لیے آئینی ترمیمی بل کبھی پارلیمنٹ میں لائے گی مگر چشم تصور میں ایسا ہو بھی جائے اور بھارتی پارلیمنٹ اپنے آئین کی حدف کی گئی دفعات 370 ، اور -35 اے کو دوبارہ آئین کا حصہ بنا بھی دے تو بھارت کے لیے اس سے بڑی سرخوشی اور کیا ہو سکتی ہے کہ مقبوضہ وادی چاہے خصوصی آئینی حیثیت کے تحت ہی سہی ، بدستور بھارت میں تو شامل رہے گی اور اب کی بار اسے کوئی یہ طعنہ بھی نہیں دے گا کہ اس نے مقبوضہ کشمیر پر اپنا ناجائز تسلط جما رکھا ہے۔ اس کی خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی کے بعد تو اس پر بھارت کا تسلط بھی جائز ہو جائے گا جس کے لیے بھارت کو ہمارے ایوان بالا کی متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد ہی جواز فراہم کر دے گی۔
حضور! ہمارا کشمیر پر شروع دن کا کیس اور اصولی موقف یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اسے متنازعہ علاقہ قرار دے کر کشمیری عوام کو استصواب کا حق دیا ہے ۔ چنانچہ کشمیریوں نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا ہے۔ اسی بنیاد پر بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرے اور مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کے لیے استصواب کا اہتمام کرے۔ کشمیری عوام اپنے مستقبل کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے وہ ہمیں قبول ہو گا۔
بھارت نے پاکستان کے اس اصولی اور ٹھوس موقف کو غیر موثر بنانے کے لیے ہی اپنے آئین میں ترمیم کر کے اس میں دفعات 370 ، اور -35 اے شامل کرائیں اور ان کی بنیاد پر مقبوضہ وادی کو خصوصی آئینی حیثیت دے کر اس پر بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی ہٹ دھرمی اختیار کی جبکہ پاکستان اور کشمیری عوام نے اس بھارتی ہٹ دھرمی کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور دفعہ 370 ، اور -35 اے کی صورت میں بھارتی آئین میں کی گئی ترامیم کو بھی کبھی قبول نہیں کیا ۔ اس کے برعکس پاکستان اور کشمیری عوام کا نمائندہ عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں سے ہمیشہ یہی تقاضہ رہا ہے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے بھارت کو مجبور کریں۔ اگر ہم کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے بھارتی آئین کی متذکرہ دفعات کو قبول کر لیتے تو بھارت اس پر اپنی کامرانی و شادمانی کے ڈنکے بجاتا مگر کشمیری عوام نے اس کے برعکس بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں جانی اور مالی قربانیوں کی انمٹ داستانیں رقم کر دیں۔
ہمارے آج کے ایوان بالا کے ذمہ داران کو ماضی قریب کی جانب نظر گھما کر کشمیریوں کی بے پایاں جدوجہد کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس جدوجہد کے نتیجہ میں ہی بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے ذریعہ خودمختاری دینے پر بھی آمادہ ہو گئے تھے جس کے لیے انہوں نے کشمیریوں کی نمائندہ جماعتوں کے قائدین کی آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کی مگر کشمیر کے حریت لیڈران تو کجا ، بھارت کے کٹھ پتلی کشمیری لیڈران بھی منموہن سرکار کے اس دلفریب چکمے میں نہ آئے اور عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت کسی بھی کشمیری لیڈر نے منموہن کی طلب کی گئی کانفرنس میں شرکت کشمیریوں کے ساتھ غداری کے مترادف سمجھا ، تو جناب ! آپ خود ہی اندازہ لگا لیں اور فیصلہ کر لیں کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی ہی ہمارا کشمیر کاز ہے یا ہم نے گزشتہ 75 سال سے بھارتی غلامی کے شکنجے میں جکڑے کشمیریوں کو بھارت کے تسلط سے آزادی دلانی ہے۔ مودی سرکار کے لیے اس سے زیادہ سودمند اور کیا بات ہو گی کہ ہمارے ایوان بالا کے تقاضے پر وہ اپنے زیرِ تسلط کشمیر کی بھارتی ریاست کی حیثیت سے خصوصی آئینی حیثیت بحال کر دے۔ اس سے اس کی کشمیر کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی ہٹ دھرمی تو مسلّمہ ہو جائے گی اور اس کے بعد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں معاونت کے لیے ہماری کسی تنظیم کی جانب سے فراہم کی گئی کمک سیدھی سیدھی دراندازی اور دہشت گردی ٹھہرے گی جس کے لیے بھارت پہلے ہی پاکستان کو موردالزام ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا اور وہ ہمیں دہشت گردوں کا سرپرست قرار دلانے پر تلا بیٹھا ہے۔
پھر حضور والا! ایوان بالا میں منظور کی گئی اپنی متفقہ قرارداد کا اسی تناظر میں جائزہ لے لیجئے کہ اس کی روشنی میں ہم کشمیر پر اپنا دیرینہ اصولی موقف اختیار کئے رکھنے کی پوزیشن میں بھی ہوں گے یا نہیں۔ کشمیر کی پانچ اگست 2019ء سے پہلے کی پوزیشن کی بحالی کے لیے تو پوری عالمی برادری گزشتہ دو سال سے بھارت پر دبائو ڈال رہی ہے مگر بھارت ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وہ ہمارے ایوانِ بالا کی قرارداد پر کیا اثر لے گا مگر اس قرارداد پر بھارت کو حاصل ہونے والی اندرونی خوشی شاید اس سے چھپائے نہ چُھپ سکے اور پھر وہ اسے اقوام عالم سے کشمیر پر اپنے موقف کو تسلیم کرانے کے لیے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ پھر ہم یہ گھاٹے کا سودا کس برتے پر قبول کر رہے ہیں۔ خدارا کشمیر پر اپنے دیرینہ اصولی موقف پر ہی ڈٹے رہئیے ورنہ مودی سرکار کو اقوام عالم میں ہم پر پوائنٹ سکورنگ کا ضرور موقع حاصل ہو گا۔ تو کیا ہم کشمیریوں کی آزادی کی 75 سالہ جدوجہد کا سفر کھوٹا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں؟
٭…٭…٭