ملتان (میاں غفار سے) حکومت کی تمام تر توجہ شوگر مافیا پر مرکوز ہے اور دوسری طرف گندم کی ٹرانسپورٹیشن کے حوالے سے ایک بہت بڑا ہاتھ مارا جا رہا ہے۔ اس کرپشن کی مالیت کروڑوں روپے ماہوار ہے۔ سنٹرل پنجاب کے مختلف اضلاع میں پاسکو کے گوداموں سے پنجاب ہی کے مختلف شہروں کیلئے گندم کی سپلائی کا مہنگا ترین ٹھیکہ ایک ہی پارٹی کو 181 روپے فی بوری کے حساب سے دیکر ایک انتہائی منظم کرپشن کی گئی ہے۔ پاسکو کے اکثر گودام سنٹرل پنجاب کے مختلف اضلاع جن میں پاکپتن، اوکاڑہ، خانیوال، لودھراں سمیت بہت سے اضلاع شامل ہیں، کے گوداموں سے گندم کی پسائی کیلئے فلور ملوںکو فراہم ہورہی ہے اور فلور ملیں یہ آٹا پیس کر یوٹیلٹی سٹوروں کو فراہم کررہی ہیں اور پنجاب بھر میں اس کا ایک ہی کرایہ 181 روپے فی بوری مقرر کر دیا گیا ہے۔ ملتان کی فلور ملوں کو آٹے کی سپلائی پر بیس روپے فی بوری، مظفر گڑھ سے سپلائی پر چالیس روپے فی بوری لاگت آتی ہے جبکہ پاک پتن سے راولپنڈی، اٹک اور جہلم کی فلور ملوں کو گندم کی سپلائی پر اوسطاً 80 روپے سے 110 روپے فی بوری خرچ آتا ہے اور جہاں گوداموں سے یوٹیلٹی سٹور کو آٹے کی سپلائی اسی علاقے کی فلور ملوں سے کی جارہی ہے۔ وہاں ٹرانسپورٹیشن کا فی بوری خرچہ 10سے 15 روپے ہے مگر ٹھیکہ حاصل کرنے والی پارٹی ہر بوری کی سپلائی پر خواہ 20 روپے خرچ آئے یا پاک پتن سے اٹک تک 110 روپے، وہ 181 روپے ہی وصول کر رہی ہے۔ اس پر حیرت ناک امر یہ بھی ہے کہ فلور مل مالکان ازخودگوداموں سے گندم اٹھاتے اور ٹرکوں کا کرایہ دیتے ہیں۔ جونہی ٹرک پاسکو کی گندم لیکر ان کی فلور ملوں پر پہنچتا ہے۔ اگلے ہی روز ٹھیکیدار کا عملہ مذکورہ مل میں پہنچ کر انہیں کہتا ہے کہ جو فی بوری آپ کا خرچ آیا ہے جوکہ انہیں معلوم بھی ہوتا ہے، اسے کاٹ کر 181 روپے فی بوری کے حساب سے بقایا رقم ہمیں دے دیں اور مذکورہ فلور مل والے خاموشی سے انہیں یہ پیسے دیکر یہی خرچہ صارفین کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ظالمانہ فیصلے کے بعد صارف کو کم از کم 30 روپے زائد قیمت پر ایک تھیلا آٹا خریدنا پڑرہا ہے۔ اگر حکومت یہ فیصلہ واپس لے اور مختلف علاقوں میں فاصلے کے مطابق ٹھیکے دے تو صارف کو کم از کم 30روپے فی تھیلا کم قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ سابقہ دور حکومت کے آخری دنوں میں گندم کے حوالے سے ایک بہت بڑا فراڈ ہوا جس پر اربوں روپے کا نقصان حکومت کو ہوا تھا۔