ٹکرّیں مت مارئیے 


افغانستان میں شدید زلزلہ آیا اور پھر وہی ہوا جو زلزلوں سے ہوا کرتا ہے۔ ہزاروں افراد جاں بحق ہزاروں زخمی ہو گئے، گھر برباد اور عمر بھر کی جمع پونجی تباہ ہو گئی۔ کتنے والدین اپنے بچوں سے اور کتنے بچے اپنے والدین سے محروم ہو گئے۔ پکتیا صوبے کے ایک کم سن بچے کے ساتھ جو المیہ ہوا وہ اپنی جگہ بے مثال المیہ ہے۔ اس  کے گھر کے تمام گیارہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے خاندان نے اسے گود لے لیا ہے اور اس بچے کی وڈیو آئی ہے جس میں وہ مسلسل دائیں بائیں دیکھ رہا ہے، اسے یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اس کے سبھی گھر والے کہاں گئے۔ اندازہ کیجئے، کسی بھرے پرے گھر کا ایک فرد کم ہو جائے تو ویرانی برسوں تک نہیں جاتی۔ نہ دل کی ، نہ گھر کی۔ اور ایسے زلزلوں میں لاتعداد گھرانے اپنے بہت سے افراد سے محروم ہو جاتے ہیں، ان کیلئے دنیا پہلے جیسی نہیں رہتی، اوپر قضا سے، سیٹلائٹ کے ذریعے دنیا دیکھو تو جوں کی توں ہے۔ 
افغانستان قحط کے عذاب سے گزر رہا ہے، سیلاب بھی آ گیا ہے۔عورتیں گردے بیچ رہی ہیں یا پھر لخت جگر۔ وبائوں کا زور ہے، فاقوں کادور ہے اور اوپر سے قدرتی سانحات۔ افغانستان کی شب غم کو شروع ہوئے 45 سال ہو گئے اور ہنوز سحر ہونے کے کچھ آثار نظر نہیں آتے۔ اوپر سے طالبان کی سخت گیر حکومت ہے جو سانس لینے پر بھی پوچھ گچھ کرتی ہے۔ سبھی طالبان ایسے نہیں، لیکن بہت ایسے ہیں جو ناقابل فہم قسم کی سختیاں ان ذلتوں فاقوں کے مارے عوام پر کرتے ہیں۔ جیسے ایک آدمی کی تقدیر ہوتی ہے کہ کبھی ساتھ نہیں دیتی، ہمیشہ دکھوں میں گھرا رہتا ہے، ویسے ہی ملکوں کی بری تقدیر کے دور ہوا کرتے ہیں۔ افغانستان بھی انہی میں ہے۔ دنیا نے موجودہ طالبان حکومت کا بائیکاٹ کر رکھا ہے جو نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ اور اب تو نجی رفاہی ادارے بھی پہلے جیسے گرم جوش نہیں رہے۔ خدا ان کی مدد فرمائے۔ 
______________
روسی قونصل جنرل آندرے فیڈروف (سفارت کار سے زیادہ کسی ادیب کا نام لگتا ہے) نے کہا ہے کہ انہیں عمران خاں حکومت اور روس کے درمیان تیل کی خریداری کے کسی معاہدے کا علم نہیں۔ 
یعنی روس کی حکومت کو ایسے کسی معاہدے کا علم نہیں جو عمران حکومت کے ساتھ طے پایا ہو۔ ظاہر ہے ، سفارت کار اپنی حکومت کا نمائندہ بھی ہوتا ہے اور ترجمان بھی۔ 
بہرحال، ہمارے پی ٹی آئی کے دوست روسی سفارت کار کے اس بیان کو نہیں مانیں گے۔ وہ یہی کہیں گے کہ ایسا معاہدہ تو ہوا تھا،جو اس سے لاعلم ہے تو یہ اس کی لاعلمی ہے، معاہدہ تو ہوا تھا۔ 
برسبیل تذکرہ، دو روز پہلے عمران خاں نے بے ساختگی میں فرما دیا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش ایک سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ یعنی تب یہ سازش ہوئی جب روس یوکرائن جنگ کا خیال تک نہیں تھا ، نہ عمران خاں کے دورہ روس کی کوئی پیش گوئی موجود تھی اور نہ روس سے تیل کی خریداری کے تصور کا کوئی وجود تھا۔ امریکی سازش تو اس سال مارچ میں ہوئی، پھر اس سازش کی بنیاد روس کا دورہ، یوکرائن کی جنگ اور تیل کا معاہدہ کیسے بن گیا؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ پی ٹی آئی میں کئی سیانے لوگ بھی ہیں جیسے فواد چودھری اور فیاض چوہان صاحب، وہی کچھ دماغ پر زور دیں اور اس الجھن کی سلجھن ڈھونڈیں۔ 
______________
فواد چودھری سے یاد آیا، کل ہی انہوں نے ایک دلچسپ بیان دیا ہے فرمایا کہ ضمنی الیکشن میں حکمران اتحاد کو ’’لوٹا‘‘ انتخابی نشان الاٹ کیا جائے۔ 
یہ فرمائش انہوں نے الیکشن کمشن سے کی ہے۔ وہ تو شاید نہ مانے، کسی اور فورم سے کر دیکھیں، شاید رد نہ ہو۔ 
خیر، لیکن فواد صاحب حالات کچھ ایسے ہیں کہ حکمران اتحاد کو انتخابی نشان لوٹا ملے یا بالٹی، وہ یہ الیکشن جیت ہی جائے گا۔ آپ اپنے انتخابی نشان پر غور کریں۔ یعنی بلّے BAT پر۔ پولیٹیکل پروفیسی PROPHECY کے  ماہرین اور سیاسی ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بلّا اب بیٹنگ کے قابل تو نہیں رہا۔ کیوں نہ اس پر دستخط کر کے کسی قدردان کے ہاتھ بیچ دیا جائے، اور مصرف ووٹ نہ سہی، معقول رقم تو ہاتھ آ ہی جائے گی۔ 
______________
قومی خزانے کی تہی دامنی کم کرنے کیلئے حکومت نے بڑی صنعتوں پر دس فیصد سپر ٹیکس لگا دیا ہے۔ فرٹیلائز، بیکنگ ، کیمیکل بیوریجز سیمنٹ، سٹیل ، شوگر، تیل کی صنعتوں سمیت بہت سے شعبے شامل ہیں۔ 
اس پر ٹیکس کا نشانہ یہ صنعتیں محض ظاہر میں ہیں۔ یہ کارخانے اب ٹیکس کو عوام پر منتقل کر دیں گے، ہر شے دس نہیں، بارہ سے پندرہ فیصد مہنگی ہو جائے گی۔ 
خبر کی درست شکل یوں بنتی ہے کہ حکومت نے عوام پر مزید بارہ سے پندرہ فیصد ٹیکس لگا دیا ۔سیلز ٹیکس سے یاد آیا۔ دنیا میں اس سے زیادہ ظالمانہ مذاق اور کیا ہو گا جو اس نام کو رکھ کر کیا گیا ہے۔ 
سیلز ٹیکس کا مطلب ہے فروخت ٹیکس یعنی کارخانے دار کی چیزیں زیادہ بکیں، وہ زیادہ ٹیکس دے، دکاندار کی بکری زیادہ ہو، وہ بھی ٹیکس دے لیکن یہ وہ ٹیکس ہے جو کارخانے والا دیتا ہے نہ دکاندار، یہ خریدار کو دینا پڑتا ہے۔ یعنی خریدار پر جگّے ٹیکس کا نام فروخت ٹیکس کر دیا۔ 
______________
ایک معاصر نے ’’تحقیقاتی رپورٹ‘‘ پختونخواہ کے جنگلوں کی آگ پر چھاپی ہے۔ بڑی دلچسپ ہے اور اس سے صاف لگتا ہے کہ ’’قدرت‘‘ پی ٹی آئی پر کتنی مہربان ہے۔ 
خبر ہے کہ صوبے میں بلین ٹری سونامی میں گھوٹالے کی رپورٹوں پر نیب نے چیف کمشنر کو خط لکھا۔ خط موصول ہونے کے فوراً بعد ایک جنگل میں آگ لگ گئی۔ دوسرے عہدیدار کو دوسرا خط لکھا، جس کے بعد ایک دوسرے جنگل میں بھی شعلے بھڑک اٹھے۔ تیسرے خط کے بعد بھی یہی ہوا یعنی چل سو چل۔ 
مجموعی طور پر صوبے کے ان تمام جنگلات میں آگ لگنے کے پانچ سو سے زیادہ واقعات ہوئے جہاں بلین ٹری منصوبے کے تحت شجرکاری ہوئی تھی۔ 
اسے کہتے ہیں نام و نشان مٹ جانا (یا مٹا دینا)۔ اب عمران کے مخالف سکاٹ لینڈ یارڈ والوں کو لے آئیں، کچھ بھی سراغ نہیں ملے گا۔ بتانے والے بتا دیں گے کہ راکھ کے اس ڈھیر میں ایک کروڑ، فلانے ڈھیر میں دو کروڑ اور فلاں والے قطعہ سیاہ میں چھ کروڑ درخت لگائے تھے۔ کرلو جو کرنا ہے۔ 
یہ ہے قدرت کی وہ مہربانی جسے آپ غیبی مدد بھی کہہ سکتے ہیں 
______________
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کمیٹی صرف کاغذات کی حد تک کام نہیں کرے گی، عملی نتائج سامنے آئیں گے۔ معاملہ سنجیدہ ہے۔ ادھر ایک ایوان سے یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ لاپتہ افراد سے متعلق کمشن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا۔ 
لاپتہ افراد سے متعلق کمشن دراصل لاپتہ افراد کا کمشن ہے۔ یہ کمشن خود بھی لاپتہ ہے اور اس کے ارکان کو بھی کسی شے کا پتہ ہے نہ کسی گمشدہ کا۔ 
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اس کی خدمت میں عرض ہے کہ 
خواہ مخواہ کی ٹکریںمار کر اپنے ماتھے اور سر پر ڈینٹ نہ ڈالے 
ہیر آکھا جو گیا جھوٹھ بولیں 
’’کون لاپتہ دا پتہ ‘‘ لیاوندا

ای پیپر دی نیشن