حکومت کے کندھوں پر تین تین ذمے داریاں عائد ہوچکی ہیں ان تکونی ذے داریوں میں ایک کارخ درست کرنے کی کوشش کی جائے تودوسری کی سمت خراب ہوجاتی ہے اور تیسری کا تعلق عوام سے ہے جسکا رخ آج تک کسی نے متعین کرنے کی کوشش نہ کی اس موقع پرشہباز شریف یہ بھی نہیں کہہ سکتے اکیلی جان تے لکھاں دکھ کیونکہ انکے ساتھ اتحادی موجود ہیں اور حکومت کی تبدیلی کا مقصد بھی سابقہ حکومت سے نجات دلوا کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا مقصود تھا لیکن عوام پر مہنگائی کے روز بروز بڑھتے طوفان نے عوام کے ذہنوں کو ماؤف کردیا ہے۔
چنگیز خان کھوپڑیوں کے مینار لگادیا کرتا ایک دانشورنے لکھا کر موجودہ دور میں لاتعداد مسائل نے عوام کو اسقدر خالی الذہن کردیا ہے کہ پورے معاشرے میں چلتی پھرتی کھوپڑیاں ہیں۔ کارل مارکس اس نظریہ میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ اس نے لکھا کہ معاشرے میں پیٹ کی بھوک جنسی بھوک سے زیادہ خطرناک ہے پیٹ کاایندھن بھرنے کیلئے لوگ جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں اور معاشرتی ناہمواری کی وجہ یہی غربت ہے لیکن حزب اقتدار اورمخالف کی سیاسی کشمکش اور ایک دوسرے کونیچا دکھانے کی کوششوں نے عوام کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔
اب سوال تویہ پیداہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سے حالیہ مذاکرات کے بعد کیا معاشی صورتحال سنبھل جائیگی اور اس معاہدے کے بعد عوام کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئیگی۔ اس سے قبل ٹیکسوں کی بڑھتی ہوئی شرح اور بجلی گیس اور پیٹرول کی قیمتوں نے عوام پر جو بم گرایا ہے کیا اس معاہدے کے بعد انکو ریلیف ملے گا؟ لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ آگے چلکرنہ صرف پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ یکم جولائی سے بجلی اور گیس میں بھی اضافہ ہوگا ۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک ریاست میں جب غربت بڑھ گئی توریاست کے والی نے وزیر باتدبیر کو بلایا کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے وزیر باتدبیرنے کہاکہ یہ کونسی مشکل بات ہے آپ عوام کی توجہ مہنگائی سے ھٹاکر کسی اور طرف لگادیں اگلے دن اعلان کیاگیا کہ اس ریاست میں جوبھی یہ پتہ لگائے گا کہ پہلے مرغی پیدا ہوئی کہ انڈہ اسے انعام واکرام سے نوازا جائیگا۔ اسوقت سے ریاست کے عوام انعام و اکرام کیلئے اس ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں جسکی کوئی منزل نہیں ۔ہم نے عوام کی توجہ آئی ایم ایف کی طرف موڑ رکھی ہے کہ قرض ملتے ہی ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ جائیگا ۔ترقیاتی منصوبے شروع ہوںگے لیکن عوام کو اس ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ حالات وواقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ نئے سخت شرائط والے قرضوں کے حصول کے بعد مزید سخت فیصلے عوام کی زندگی پر برے اثرات ڈالیںگے۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومتی وزیر کے بیان کے مطابق چائے کم استعمال کریں چینی کم استعمال کریں۔ عین ممکن ہے یہ بھی بیان سامنے آجائے کی کہ عوام سانسیں لینا بھی چھوڑ دیں۔ اسوقت مہنگائی کی شرح اٹھائیس فی صد ہے جوکہ مستقبل قریب میں پینتیس سے چالیس فی صد ہوجائیگی حکومت کا موقف ہے کہ وہ اپنی مدت دو ہزار تیئس تک پوری کریگی اب اس سفر کے دوران کیا کیا مشکلات درپیش ہوں گی یہ تووقت ہی بتائے گا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ چلے توکٹ ہی جائیگا سفر آہستہ آہستہ۔
ادھر اپوزیشن کا موقف ہے کہ اگر حالات اس نہج پرہی جانا تھے توکیا ہم برے تھے ۔عوام بھی اس تبدیلی سے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ عمران حکومت کے جاتے ہی تجربہ کار سیاستدان کوئی بڑی تبدیلی لائیں گے اور غریب کے ٹھندے چولہے پھر سے جل اٹھیں گے۔ آج ہمیں جن کڑے فیصلوں کی ضرورت ہے اس میں ہرسطح پر عیاشی کا خاتمہ غیرترقیاتی اخراجات میں کمی اور اس سادہ طرززندگی کی ضرورت ہے جس سے معاشی نظام کوکسی حدتک سہاراملے اسکے ساتھ درست فیصلے سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ اور سیاسی استحکام کیلئے ناگزیر حیثیت رکھتاہے۔ مہنگائی مسلسل بڑھنے کی وجوہات میں ایک تو وہ قرضوں کا انبارہے جوایک سوبیس ارب ڈالرسے تجاوز کرچکاہے دوسرا وہ بجلی کانظام ہے جس کے تحت ہمیں باہر سے بجلی منگوانی پڑتی ہے ہم نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ڈیمز بنانے کی طرف کبھی توجہ نہ دی اب غریب کیلئے یہ بات تکلیف دہ ہے اگروہ بجلی کی قیمتیں ادا کرتے ہیں توانکے پاس کھانے کیلئے پیسے نہیں بچتے اورتیسری بات یہ کہ ہمیشہ سے ہمارا مقصد اقتدار بچاؤ تو رہا غربت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح نہ رہا ہم ہمیشہ اقتدار میں آنے کیلئے یہ تاثردیتے رہے کہ پرانی حکومتیں غیرجمہوری تھیں ہم حکومت کے اصل وارث ہیں اورعوام کے خدمتگا رہیں اورعوام اس خوش فہمی میں مبتلارہے کہ اپنا بھی دن آئیگا لیکن ہردن مہنگائی کی نوید لیکرآیا پاکستان نے انیس سو اٹھاسی کے بعد سخت شرائط پر قرض لیا اس سے قبل قرض پرشرائط نہ ہونے کے برابر تھیں قرض بڑھتاگیا شرائط سخت ہوتی گئیں مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی ۔آج قرض کی ادائیگی کا مسئلہ سوہان روح بنا ہواہے ۔ ہمارے پاس الہ دین کاچرغ نہیں کہ معاملات درست کرلیں ہمیں اس نظام کو سخت محنت اتحاد برداشت اور درست خارجہ پالیسی سے درست کرنا ہے جس کی طرف ہماراکوئی دھیان نہیںہے۔
٭…٭…٭
معیشت ، ریاست اورعوام
Jun 25, 2022