’’ گزشتہ پندرہ برسوں میں نئی نسل کے جو شاعر اْبھر کرسامنے آئے ہیں ان میں حسن عباسی کو میں صف اول میں شمار کرتی ہوں، ان کی شاعری میں فکری صلاحیت، مطالعے، انفرادیت اور محنت کا ایسا خوب صورت امتزاج ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی غزل ہجوم میں الگ سے اور بالکل صاف پہچانی جاتی ہے"
ان خوبصورت خیالات کا اظہار ہمارے سینئر شاعر جناب امجد اسلام امجد نے حسن عباسی کے بارے میں کیا ہے جو حرف حرف سچ ہے۔ بہت سے لوگوں نے حسن عباسی کی شاعری کے بارے میں اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے لیکن چونکہ کالم میں ان سب کو شامل کرنا ممکن نہیں تھا تو میں نے صرف امجد اسلام امجد کے بیان کردہ الفاظ تک ہی اکتفا کرنا مناسب سمجھا۔جن سے راقم سو فیصد متفق ہے۔ میں ایک بار حسن عباسی کے ساتھ امجد اسلام امجد کی رہائش گاہ پر گئی جہاں چند اور شاعر دوست بھی موجود تھے۔ حسن عباسی جیسے ہی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو ایک شخص نے کھڑے ہوکر حسن عباسی کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے انہی کا شعر پڑھا۔
اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے
اگرچہ حسن عباسی پر کئی ایم فل کے تھیسس ہوچکے ہیں ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف دیگر پلیٹ فارم پر بھی کئی سالوں سے ہورہا ہے لیکن میرا آج کا کالم تھوڑا سا مختلف ہے۔ اس شعر کا حوالہ اسی سے منسلک ہے مجھے اس دن اندازہ ہوا کہ اکثریت کو حسن عباسی کا یہ شعر زبانی یاد ہے۔ یہ بات اکثر موضوع بحث بنتی ہے کہ شاعر کا نام زیادہ اہم ہے یا اس کا کلام تو میرا خیال ہے کہ یہ ایک شاعر کیلئے بڑا اعزاز ہے کہ لوگ اسکے نام کے ساتھ اسکے کلام کو یاد رکھیں۔ لیکن بعض اوقات شعر اتنا آگے سفر کرجاتا ہے کہ شاعر کا نام پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ اعلیٰ ادب کی بلند ترین سطح ہے یعنی کلام کا اتنا مقبول عام ہوجانا اور عام عوام کو وہ اشعار زبانی یاد ہوں بھلے ان کو شاعر کا نام معلوم نہ ہو۔ یہ شاعر کا ماحصل بھی ہے اور شاعری کا بھی۔ لہٰذا یہ بحث جتنی بھی طول پکڑ جائے میرا اپنا نظریہ ہے کہ شاعر کا کلام جب اسکے نام سے بہت آگے کی طرف سفر کرتا ہے تو یہ اس کی تخلیق کے بہترین اور مکمل ہونے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ آپ دیکھئے کہ ہمیں بہت سے ایسے اشعار یاد ہوتے ہیں جن کے شعراء کا نام ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ پچھلے کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر حسن عباسی کے کچھ اشعار نے بہت زیادہ شہرت حاصل کی ہے۔ آپ چیک کیجئے کہ صرف یہ شعر
تیری مشکل نہ بڑھائوں گا چلا جائوں گا
اشک آنکھوں میں چھپائوں گا چلا جائوں گا
ہزاروں نہیں بلکہ مختلف پلیٹ فارمز پر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے پسندیدگی کا اظہا ر کیا ہوا ہے۔ اسی شعر پر بے شمار ویڈیوز آپ کو مل جائیں گی جو شاعری پسند کرنے اور اس شعر کو چاہنے والوں نے بنائی ہوئی ہیں۔یعنی شہرت کی انتہاء کو چھونے والا شعر اور غزل ہے ظفر اقبال نے اسی لئے حسن عباسی کے بارے میں کہا تھا "حسن عباسی ایک کمٹمنٹ کا شاعر ہے۔ جس نے جہاں محبت کے موضوع پر شعر کہے ہیں وہاں اسے ایک رفعت بھی عطا کرنے کی کوشش کی ہے اور جدید حساسیت کے تقاضوں سے بھی عہدا برا ء ہونے کا ڈول ڈالا ہے۔ شعر کو شعر بنانا ہی اصل ہنر ہے اور یہ ہنر حسن عباسی کو خوب آتا ہے"
اس میں کوئی شک نہیں ہے حسن عباسی نے اپنے خوبصورت اشعار کو رفعت عطا کرنے کی کوشش کی اوراشعار میں اس رفعت تک پہنچ بھی پائے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کوشش میں بھلا کتنے شعرا کامیاب ہوتے ہیں تو جواب یہی ہے کہ بہت کم اس شہرت کا ذائقہ چکھتے ہیں اس کو خوش بختی کہہ سکتے ہیں۔ رومانوی تجربے سے پیدا ہونیوالے اس شاعر کے تمام اشعار اسکے رومانوی مزاج کے ترجمان بھی ہیں۔ ہر رومانوی طبیعت رکھنے والے ادب پرورکو یہ اشعار دل کو چھو جاتے ہیں ایک اور شعر بھی کتابوں کی دنیا سے چپکے سے نکل کر سوشل میڈیا پر آپ کو گردش کرتا ہوا نظر آئے گا۔
وہ کر نہیںرہاتھامیری بات کا یقین
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے
دعا ہے کہ حسن عباسی کا ہر شعر یونہی شہرت دوام حاصل کرجائے کہ شاعر کے فن کا ماحصل تو یہی ہے۔
اکٹھے ہنسنا اکٹھے رونا سکھا دیا ہے
ہمیں محبت نے ایک جیسا بنا دیا ہے