علامہ عبدالستار عاصم سوشل میڈیا کی بنا پر سبک رفتاری سے بدلتے ہوئے سوشو کلچر کے اس متحرک دور میں مرد مجاہد سے کم نہیں جہاں الفاظ و سطور کے سنہری تشخص کی بجائے بے مقصد ،بے مطلب اور بے معنی وائرل ویڈیوز یا مواد زیادہ اہمیت اختیار کر جائے جہاں بیش قیمت مطبوعہ اثاثہ چاہے وہ کتب کی صورت میں موجود ہو یا پھر رسائل و جرائد کی صورت میں ہو سوشل میڈیا اپیلکیشنز کی سطحی اور مصنوعی چمک دمک میں ماند پڑ جائے ان چیلنجز کی موجودگی میں اپنے ادارہ قلم فائونڈیشن کے پلیٹ فارم پر قلم کی لاج رکھتے ہوئے اور قلمی جہاد کو جاری رکھتے ہوئے مستقل مزاجی سے اعلیٰ معیاری کتب کی اشاعت کے سلسلہ کو جاری رکھنا واقعی ایک مستحسن اور لائق داد قدم ہے بالخصوص اس ملک میں جہاں دنیا بھر کے ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کی نسبت کتب بینی بہت کم ہو علامہ صاحب کی محبت ہے کہ جتنی تواتر اسے ان کے اشاعتی ادارہ میں کتابیں شائع ہوتی ہیں اتنی ہی تواتر سے وہ راقم کو کتب کے تحائف میں فراخ دلی اور شفقت سے کام لیتے ہیں اور یہ میرے لئے کسی سرمایہ سے کم نہیں میری لائبریری کی زینت بننے والی حالیہ کتاب’’ایم ایم عالم‘‘ جو کہ پاکستانی قومی ہیرو ایم ایم عالم (محمد محمود عالم)کی سوانح حیات پر ہے نے میری ذہنی بصارت پر ایک یہ راز بھی منکشف کیا کہ جری میدان میں خدمات انجام دینے والے محض سب مجاہد ہی نہیں ہوتے بلکہ کچھ صوفی منش بھی ہوتے ہیں ’’ایم ایم عالم‘‘کے مصنف سکواڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر نے جو کہ اس سے قبل دیگر دو شہدا پاکستانی ہیروز کرنل شیر خان اور کیپٹن لا لک جان کی سوانح حیات پر کتب لکھ چکے ہیں اپنی کتاب ’’ایم ایم عالم‘‘میں بھی قومی ہیروز کے مقدمہ کو بڑی مہارت اور عمدگی سے لڑا ہے مصنف نے ایم ایم عالم کی زندگی کے بہت سے گوشوں پر سے پردہ کشائی کی ہے 1965ء کی جنگ میں ایک طیارہ کے ساتھ دشمن بھارت کے پانچ لڑاکا جہازوں کو زمیں بوس کرنے والے بہادر سپوت کی قدر کا احساس ویسے تو پوری قوم کی ذمہ داری ہے لیکن لکھاری زاہد یعقو ب عامر جو کہ خود بھی پاکستان ایئر فورس کا حصہ ہیں اور بطور سکواڈرن لیڈر خدمات سر انجام دے رہے ہیں’’ایم ایم عالم‘‘ کی سوانح حیات قلم بند کر کے ذمہ داری پوری کر دی ہے ایم ایم عالم کون تھا ‘‘ ’’ایم ایم عالم‘‘ ایک ایسا سپوت تھا جس کے اندر پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جسے سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش نے بنگال فضائیہ کے سربراہ بنانے کی پیش کش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر اس آفر کو ٹھکرا دیا کہ میں پاکستانی ہوں اور میں اس ملک سے غداری کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور حب الوطنی کا یہ جذبہ اور دو ٹوک فیصلہ انکے بنگالی ہونے کے غلط تاثر کو بھی ذائل کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کتاب کے لکھاری زاہد یعقوب عامر نے کتاب کے پیش لفظ ’’من کی بات‘‘ میں خیالات کا ظہار کرتے ہوئے اس اہم نکتہ کو اجاگر کیا اور کہا کہ وہ ساری عمر یہی درس دیتے رہے کہ پاکستان انکی زندگی کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ ریٹائرڈ ہوئے تو دیگر ائر فورس افسران کے بر عکس فیصل ایئر بیس کے دو کمروں پر مشتمل میس میں سکونت اختیار کی اور تا دم مرگ یہیں رہے ۔وہ کشمیر اور افغان جہاد میں بھی شریک ہوئے اور جب حاضر سروس تھے تو شامی اور فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی طیاروں کی تباہ کن بمباری سے بچانے کیلئے دمشق کی فضائوں میں ایسے معرکے دکھائے کہ اسرائیلی فضائیہ کو دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ ایم ایم عالم کی سادگی ایسی کہ نہ کوئی جائیداد بنائی نہ اپنوں کو نوازا اور نہ ہی پر تعیش زندگی کو ترجیح دی’’ ایم ایم عالم ‘‘پر لکھا گیا یہ نسخہ ایک سچے اور اصل قومی ہیرو سے الفت ،محبت اور اس کے حقیقی مقام سے روشناس کروانے کا عمدہ اہتمام ہے ۔ کتاب کے آخر میں دی گئی تصویری جھلکیاں ایم ایم عالم کے بارے میں لکھی جانے والی سطور اور عملی زندگی کی عمدہ گواہی ہیں جو کہ انکی طبع اور میلان کا زبردست اظہار ہے ایک عام قاری کی حیثیت سے میری یہ خواہش ہے کہ قومی ہیروز پر لکھی جانے والی ایسی تمام کتب کو نہ صرف پاکستان بھر کے سکولوں بلکہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں بھی رکھوایا جائے۔ ایم ایم عالم 18مارچ 2013 ء کو کراچی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اللہ ایم ایم عالم کے درجات بلند کرے اور قوم کو اپنے اصل ہیروز کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سپرہیرو ایم ایم عالم کی سوانح حیات
Jun 25, 2022