آجکل آپ بہت سُن رہے ہونگے کہ فرح گوگی سابق خاتونِ اوّل کی ’’فرنٹ لیڈی‘‘ ہیں۔ فرح گوگی نے ’’یہ کردیا وہ کردیا‘‘ اب تو حکومتی نمائندوں کا یہ راگ سُن سُن کر تھک گئے ہیں۔ ماضی میں جس طرح عمران خان کہتے تھے کہ ’’مجھے میری اہلیہ نے بتایا کہ آپ تو وزیر اعظم ہیں آپکو اس زیادتی کیخلاف ایکشن لینا چاہیے۔‘‘ کہنا یہ جاہتا ہوں اگر فرح گوگی نے دل کھول کر کرپشن کی ہے تو ثبوت اکٹھے کر کے قانونی کارروائی کا آغاز کریں اور انکے ساتھ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کو بھی عدالتوں سے نہ صرف سزائیں دلوائیں بلکہ ملک کا کرپشن کے ذریعے لوٹا ہوا مال بھی برآمد کرائیں۔ ہماری جیلیں ان افراد سے بھری پڑی ہیں جو یا تو اپنے حالات سے تنگ آکر چھوٹی موٹی ہیرا پھیریاں، چوریاں چکاریاں کیں اور قانوں کے آہنی ہاتھوں کا شکار ہوکراسیران کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری جانب ملک کے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پہلے سے درج مقدمات ختم ہونے کی بجائے پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اگر ہم بات کرتے ہیں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی تو انھیں گھریلو ہونے کی وجہ سے ہرگز کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہونا چاہیے۔کیا ہماری یادداشتوں سے مٹ چکا ہے کہ مریم نواز اپنی بیمار والدہ کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر سیدھی جیل گئی تھیں اور تین مرتبہ رہنے والا وزیر اعظم باپ اپنی ان کی بیٹی کو جھوٹے مقدمے میں جیل جانے سے نہ بچا سکا، یاد نہیں بے نظیر کی اسیری اور انکی وہ تصاویر جس میں وہ اپنے تین معصوم بچوں کو تپتی گرمی میں بغیر سایہ جیلوں میں اپنے شوہر سے ملاقات کیلئے گھنٹوں بے یارومدگار کھڑی رہتی تھیں وہ شخص جسکی بدولت عمران خان وزیر اعظم بنے اور اپنے محسن اور اسکی صاحبزادیوں کیخلاف جھوٹے مقدمے درج کروائے اور تھانوں کچہریوں میں رسوا کیا۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو جب منشیات کے جھوٹے مقدمے میں پھنسوایا گیا تو انکی اہلیہ اور بیٹی عدالتوں میں پیش ہوتی رہی۔ اس قسم کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہماری تباہ حال معیشت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں اس وقت دو سو سے زائد ممالک ہیں۔ ان میں سے ایک ملک ایسا بھی ہے جو روس سے کم از کم دس گنا چھوٹا ہے لیکن جس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے تین گنا بڑا ہے۔ یہ ملک پاکستان ہے جو دنیا میں مٹر کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرے ، خوبانی ، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے ، پیاز اور دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچویں، کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے، آم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں، چاول کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں، گندم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں اور مالٹے اور کینو کی پیداوار کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ہے۔ یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں 25 ویں نمبر پر ہے۔اسکی صرف گندم کی پیداوار پورے براعظم افریقہ کی پیداوار سے زائد اور براعظم جنوبی امریکہ کی پیداوار کے برابر ہے۔ یہ ملک دنیا میں صنعتی پیداوار کے لحاظ سے 55 ویں نمبر پرآتا ہے۔ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے اور تانبے کے ذخائر کے اعتبار سے ساتویں نمبر پر ہے۔ سی این جی کے استعمال میں اوّل نمبر پر ہے۔ اس ملک کے گیس کے ذخائر ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہیں اور یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔ لیکن سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ملک آئین اور قانون کی بالادستی کی نظریہ ضرورت کے تحت دھجیاں اُڑانے والوں کے تسلسل کے ساتھ کھلواڑ کی وجہ سے پچھلے 72 سال سے وینٹی لیٹر پر ہے۔
اوپر سے ہمارے سیاست دان ملک کی جڑیں مسلسل کھوکھلی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جس طرح ماضی میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہمارا ملک غلط سفارتکاری کی وجہ سے شدید آئیسولیشن میں چلا گیا تھا۔ عمران خان کو یہ اندازہ ہی نہ تھا کہ سعودی عرب ہمیشہ ہمارے ساتھ بڑے بھائیوں والا کردار ادا کرتا رہا ہے اور بھنور میں پھنسی معیشت کو کسی نہ کسی طریقے سے ریسکیو ضرور کیا ہے۔ چند سال قبل جب محمد بن سلمان نے یو این اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے اپنا رائل جہاز عمران خان کو بھجوایا کہ آپ آنے جانے کیلئے شاہی طیارہ استعمال کریں۔ یہ عمران حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا پھر یہ خبریں عام ہوئیں کہ نیویارک ایئرپورٹ سے اُڑنے والے طیارے کو واپس لینڈ کروا لیا گیا مگر سمجھ سے قاصر تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے، تو ہوا کچھ یوں کہ عمران خان یو این اجلاس کے دوران تمام وقت ترکش صدر اردگان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتے رہے اور محمد بن سلمان سے حال احوال بھی نہ پوچھا۔ محمد بن سلمان مخالف ملک کے صدر سے اتنی قربت دیکھ کر خفا ہو گئے اور جیسے خان بہادر (عمران خان) نے واپسی کیلئے رائل پلین میں بیٹھ کر اُڑان بھری تو کنٹرول پر میسج پاس کر کے طیارہ گراؤنڈ کرا دیا گیا اور موصوف سے کہا گیا اب آپ کمرشل فلائیٹ سے تشریف لے جائیں۔ اس شدید ناراضگی پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو معذرت کرنے بھیجا گیا مگر کسی قابل ذکر عہدیدار نے ان سے ملاقات تک نہیں کی جس کے بعد اسٹبلشمنٹ کے دو بڑے گئے مگر بات نہ بن سکی۔ اسکے بعد یورپ کی چھترول شروع کر دی گئی اور عمران خان یورپی یونین کو اپنی تقاریر میں سخت جملوں کا نشانہ بناتے رہے باوجود اسکے کہ پاکستان گرے لسٹ میں موجود تھا۔ اب آپ سرکار نے امریکہ کو ہدف بنا کر معصوم عوام کو ایک نیا راگ سنانا شروع کر رکھا ہے۔ اب اندازہ لگائیں کہ امریکہ اور پاکستان کا آپس میں کیا مقابلہ ’’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ‘‘ کے مصداق۔
ہمیں اس وقت انتہائی تجربہ کار سفارتکاری کی اشد ضرورت ہے ملکی معیشت آئیسولیشن کا شکار ہو چکی ہے اگر پاکستان کے دوست ممالک ہم سے ناراض ہی رہے تو خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کرسکتا ہے۔