گزشتہ چند روز میں پاکستان کرکٹ زیربحث رہی ہے لیکن اس مرتبہ یہ بحث کھلاڑیوں کی کارکردگی سے بڑھ کر پاکستان کرکٹ بورڈ میں تبدیلی کے حوالے سے تھی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کی ملاقات ہوئی اور اس ملاقات کی تصویر سامنے آنے کے بعد یہ باتیں شروع ہوئیں کہ شاید خالد محمود بھی بورڈ چیئرمین بننے کے خواہش مند ہیں۔ بعدازاں انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کر دیا کہ اگر انہیں حکومتِ وقت پیشکش کرتی ہے تو وہ یہ ذمہ داری نبھانے کے لیے تیار ہیں۔ اس تصویر کے سامنے آنے کے بعد لندن سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق چیئرمین کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی کی تصویر سامنے آتی ہے۔ ان دونوں ملاقاتوں سے پہلے ایک اور سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیا بھی خبروں میں رہے ، ان کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آتی رہیں کہ توقیر ضیا نے کسی طریقے سے رمیز راجہ کی مدد کی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت نے فوری طور پر کرکٹ بورڈ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ بہرحال سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور نجم سیٹھی کی تصویر سامنے آنے کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو نجم سیٹھی سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔ خالد محمود کی تصویر کے بعد نجم سیٹھی کی تصویر کو اس حوالے سے اہمیت دی جا رہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے اہم فیصلے میاں نواز شریف کی مشاورت اور منظوری سے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں لندن سے سابق وزیر اعظم کے ساتھ سابق چیئرمین کرکٹ بورڈ کی تصویر اُن سب لوگوں کو پیغام ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کرکٹ بورڈ میں اقتدار کی دوڑ کا خاتمہ ہو گا۔ عین ممکن ہے آنے والے دنوں میں میاں شہباز شریف اس حوالے سے کوئی اہم فیصلہ کریں۔ موجودہ صورتحال کسی بھی طریقے سے پاکستان کرکٹ کے لیے اچھی نہیں ہے۔ رواں سال پاکستان نے بہت کرکٹ کھیلنی ہے محدود وقت میں کئی عالمی مقابلوں کی تیاری کرنی ہے اس لیے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ استحکام کیسے آئے گا۔
بنیادی طور پر یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پالیسی واضح کرے ، غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کرے ، اگر انہوں نے رمیز راجہ کو برقرار رکھنا ہے تو وزیر اعظم پاکستان انہیں ملاقات کا وقت دیں اور اعتماد کا اظہار کریں۔ اگر حکومت تبدیلی چاہتی ہے تو پھر اس حوالے سے بھی جلد فیصلہ کرے۔ حکومتی حلقے رمیز راجہ کو چیئرمین کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رمیز راجہ کی تعیناتی سابق وزیر اعظم عمران خان نے کی تھی۔ حکومتی شخصیات کی خواہش ہے کہ رمیز راجہ خود ہی استعفیٰ د ے کر چلے جائیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیا کہتے ہیں کہ ’’رمیز راجہ کو وقت ملنا چاہیے اور کسی بھی چیئرمین کیلئے اپنی مدت پوری کرنا لازمی ہے۔ میں رمیز کے لیے نرم گوشہ ضرور رکھتا ہوں کیونکہ اُس نے میرے ساتھ کام کیا ہے‘‘۔ دوسری طرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کہتے ہیں کہ ’’ملکی کرکٹ درست سمت میں نہیں جا رہی پاکستان میں کہیں کلب کرکٹ نہیں ہو رہی، جونیئر کرکٹ کا کوئی ڈھانچہ نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی کام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جب تک ملک بھر میں جونیئر کرکٹ نہیں ہو گی اُس وقت تک کیسے کہا جا سکتا ہے کہ بورڈ درست سمت میں کام کر رہا ہے اسی طرح محکمہ جاتی ٹیموں کی کرکٹ شروع کروانے کا خاص مقصد تھا۔ اے ایچ کاردار مرحوم نے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کھلاڑیوں کو معاشی تفکرات سے آزاد کرنے کے لیے شروع کی تھی۔ 80ئ، 90 ء کی د ہائی اور اس کے بعد اس نظام کے کی خوبیاں سب دیکھ چکے ہیں۔ ہمیں آج بھی ملک میں ٹیموں کی تعداد بڑھانے کی طرف توجہ دینی چاہیے‘‘۔
حکومت بدل چکی ہے اور اب مشکل فیصلوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ان مشکل فیصلوں کے بعد عام آدمی کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جب ہم مشکل فیصلوں کی بات کرتے ہیں تو پھر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پاکستان کے نوجوان کرکٹرز کی مشکلات کب کم ہوں گی اس بارے ابھی تک کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا مسئلہ کھیل کے مواقع کم ہونا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں محکمہ جاتی اور علاقائی ٹیموں کا نظام ختم کیا گیا اور اس کی جگہ چھ صوبائی ٹیموں کا نظام متعارف کروا دیا گیا۔ 2019ء سے ملک میں اسی نظام کے تحت کرکٹ کھیلی جا رہی ہے۔ اس دوران ملک کے نامور کرکٹرز اور کرکٹ منتظمین محکمہ جاتی اور علاقائی ٹیموں کی بحالی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں لیکن حکومت بدلنے کے بعد بھی پی سی بی نے چھ ٹیموں کے نظام کو بدلنے کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا بلکہ اب تو چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ بھی یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ٹیلنٹ کی کمی وجہ سے چھ ٹیمیں بنانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رمیز راجہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم چاہتے ہیں کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ٹیموں کی تعداد بڑھائی جائے۔ فوری طور پر یہ ممکن نہیں لیکن ہم نے جو اقدامات کئے ہیں اُس سے نئے کھلاڑی سامنے آئیں تو مستقبل میں ٹیموں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ رمیز راجہ نے اپنے منصوبوں کا اعلان کر دیا ہے لیکن اُن منصوبوں میں کہیں ٹیموں کی تعداد بڑھانے کا ذکر نہیں ہے نہ ہی وہ فوری طور پر منتخب نمائندوں کو اقتدار میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں آئینی بحران ضرور پیدا ہوتا ہے۔