قانون کی بار بار تشریح سے تنازعات پیدا ہوتے ہیں : چیف جسٹس 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا ہے کہ کاروبار کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ ضروری ہے۔ سپریم کورٹ میں صرف قانون کی عملداری کی بات ہوتی ہے، قانون کی بار بار تشریح کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایس ای سی پی سیمینار سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ حقائق کے حوالے سے سوالات اٹھاتی ہے۔ ثبوت ہونے کے باوجود مس ریڈ کیے جائیں تو سوال کیے جاتے ہیں۔سپریم کورٹ میں ہم صرف قانونی پہلو کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔ تنازعات جنم لیتے ہیں۔ تنازعات کے حل کیلئے قانونی ماہرین کی خدمات لینی چاہئیں، ہم اپنے اختیارات کا استعمال محتاط انداز میں کرتے ہیں۔ ججز وقت کے ساتھ ساتھ میچور ہوتے ہیں۔ ہائیکورٹس میں کپیسٹی کے مسائل درپیش ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں کاروبار کی ترقی کیلئے اس تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ماہرین کو قانون کی تشریح کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنا چاہیے۔ ایک قانون کی دو تشریحات مسائل پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ججز آسانی سے مارکیٹ میں میسر نہیں، کئی امتحانات دینے پڑتے ہیں، ٹریبونل کے نہ بننے سے عدالتوں پر بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، جو بھی ریگولیٹر ہے اس کو ایک ٹریبونل بنانا چاہیے، سروس کے معاملات پر سروس ٹریبونل بنے ہوئے ہیں۔ قانونی اور عوامی اہمیت کے معاملات دیکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں بیٹھ کر ہم قانون کو آئین کے مطابق دیکھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ہمارا قانون کاروبار کے مواقع فراہم کرنے میں مددگار ہے؟ کاروبار کے مواقع اور صنعتی ترقی سے ملکی ترقی ممکن ہے۔ کاروبار دوست اقدامات کرنا ضروری ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25 منصفانہ وسائل کی تقسیم کا ہے، ہر شعبہ سبسڈی مانگ رہا ہے۔ سبسڈی حکومت دیتی ہے۔ سپریم کورٹ صرف یہ دیکھ سکتی ہے کہ یہ سبسڈی بلاامتیاز ہے یا نہیں۔ کمرشل سالمیت اور ریگولیٹری اقدامات درست ہونے چاہئیں۔ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اور لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا، حکومت کو چاہیے کاروباری افراد کی مشاورت سے معاملات چلائے۔ آئی پی پیز طویل مدت سرمایہ کاری کیلئے آئے، ان کویقین دہانی کرائی گئی تھی۔ طویل مدت سرمایہ کاری کیلئے ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پرائیویٹ بزنس کی حوصلہ افزائی کرنے ضرورت ہے۔ بزنس کی گروتھ سے معاشی ترقی کو فروغ ملتا ہے۔ ہمیں بہتر ریگولیٹری سسٹم، کمرشل اداروں کا وقار بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عوام کیلئے ریگولیشنز کو آسان بنانا ضروری ہے، ہائی کورٹس کی استعداد کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہائی کورٹس پر بوجھ کم کرنا ہوگا۔ الیکشن کمشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ ہمیں الیکشن کمشن کومضبوط کرنا ہے۔ ٹیکس قوانین کے مطابق بزنس کمیونٹی کے ساتھ شفاف ٹریٹمنٹ ہونا چاہیے، کیا قانون کمپنیوں کو بیرون ملک اکاو¿نٹس کی اجازت دیتا ہے کہ نہیں، عدالتیں قانون پر عملدرآمد کی پابند ہیں، اگر بزنس کو اٹھانا ہے تو بزنس مین کو سرپرائز نہ دیں، بزنس کا ماحول سازگار ہونا چاہیے۔ بزنس میں کسی قسم کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...