215 ارب کے نئے ٹیکس 

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پاکستان اور آئی اےم اےف کے درمےان قرض پروگرام کے نوےں رےوےو کو مکمل کرنے کے لئے وزےر اعظم شہباز شرےف اور آئی اےم اےف کی اےم ڈی کے درمےان پےرس مےں تےن ملاقاتوں کے بعد برف پگھلی ہے اور وزارات خزانہ اور آئی اےم اےف کی ٹےم کے درمےان گذشتہ تےن روز کے دوران ورچوئل مذاکرات مےں پےشرفت سامنے آئی ہے اور معاہدہ کے قرےب پہنچ گئے۔ وزےر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے گذشتہ چار روز سے بحث کو نہ سمےٹنے کی وجہ بھی آئی اےم اےف سے مذاکرات کا جاری رہنا تھا، ان مذکرات کی روشی ہی مےں وزےر خزانہ نے فنانس بل مےں اہم تبدےلےوں کا علان کےا۔ وزےر خزانہ نے بھی اپنی بجٹ پر عام بحث سمےٹتے تقرےر مےں کہا کہ گذشتہ تےن روز مےں فجر کے بعد گھر جاتے رہے ہےں، ان مذاکرات کے بعد ہی آئندہ مالی سال مےں مذےد 215 ارب روپے کے ٹےکس لگانے کا فےصلہ سامنے آےا، اس طرح رواں آئندہ مالی سال مےں مجموعی طور پر415 ارب روپے کی ٹےکس لگ گئے ہےں۔ 223 ارب روپے کے ٹےکس بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے لگائے گئے تھے اور منی بجٹ مےں لگنے والے 170 ارب کے ٹےکسوں کوجاری رکھنے کا فےصلہ بھی کےا گےا تھا۔ آئی اےم اےف کی طرف سے ابھی اس پےشرفت کے بارے مےںکچھ نہےں کہا گےا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جورجیوا سے پیرس میں لندن روانگی سے پہلے ملاقات ہوئی۔ ےہ ان کی اےم ڈی کے ساتھ تےسری ملاقات تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ایم ڈی آئی ایم ایف کے درمیان پیرس میں تین ملاقاتیں ہوئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو مکمل کرنے کے پاکستان کے عزم کو دوہرایا ، پاکستان کی معاشی حقیقتوں سے متعلق غور کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف نے ایم ڈی آئی ایم ایف کی سوچ کو سراہا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اپنی تمام کمٹمنٹس کو پورا کرنے کا جذبہ اور عزم رکھتا ہے۔ پاکستان کو شدید معاشی چیلنجز سے نکلنے میں دنیا کی معاونت کی قدر کرتے ہیں۔ سیلاب نے معاشی مشکلات کو مزید مشکل بنایا لیکن پاکستان نے اس کے باوجود اپنے عوام کو ریلیف دیا۔ پاکستانی عوام کو ریلیف ملنا ان کا حق ہے۔ معیشت کو واپس گروتھ کے راستے پر لانا آئی ایم ایف اہداف کے حصول کے لئے ضروری ہے۔ گزشتہ چار سال کی معاشی بدحالی کی بحالی کے لئے ناگزیر اقدامات لینا ہوں گے۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح عالمی برداری کے ساتھ اپنے عزم اور وعدوں کی تکمیل پر پورا اترتا رہے گا۔ آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے وزیر اعظم شہباز شریف کی پاکستان کے لئے عزم کو سراہا، ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان حتمی ڈیل کے قریب پہنچ گئے۔ باضابطہ اعلان جلد متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق نویں جائزے اور پروگرام بحالی کی راہ میں رکاوٹیں دور ہو گئیں۔ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب بات چیت اور نئے ڈرافٹ کی تیاری کا عمل جاری رہا۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم گزشتہ 3 دن سے معاملات طے کرنے میں مصروف تھے۔ آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کی ٹیم نے نئے ڈرافٹ کو حتمی شکل دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کردی ہیں اور کنٹینرز کی کلیئرنس کیلئے زرمبادلہ کی فراہمی کی بھی اجازت دیتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرط پوری کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ کی سہولت کے جاری 6.7 ارب ڈالر کا پروگرام 30 جون 2023ءکو مکمل ہونا ہے۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق وفاقی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے مطابق پانچ بڑے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے آئندہ مالی سال2023-24ءکے بجٹ کے نظرثانی شدہ تخمینہ جات کو حتمی شکل دے دی ہے۔ ترمیمی فنانس بل کے ذریعے بجٹ میں مجموعی طور پر عوام سے 415 ارب روپے کے مزید ٹیکس وصول کرنے کیلئے ماہانہ دو لاکھ روپے سے زائد کی تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح میں ڈھائی فیصد، کھاد پر پانچ فیصد، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے سمیت دیگر اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مجموعی طور پر عوام سے 415 ارب روپے کے مزید ٹیکس وصول کرنے کی تجویز پے، جس کیلئے ماہانہ دو لاکھ روپے سے زائد کی تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے۔ ماہانہ دو لاکھ روپے سے زائد یعنی سالانہ 24 لاکھ سے زائد آمدن پر انکم ٹیکس 2.5 فیصد اضافہ کی تجویز دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق کھاد پر بھی پانچ فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویزہے۔ کھاد پر ایکسائز ڈیوٹی سے 35 ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ پراپرٹی کی خرید وفروخت پر ایک فیصد ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔ پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس ایک سے بڑھا کر دو فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ پراپرٹی کی خرید و فروخت سے مزید 45 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے آئی ایم ایف کے پانچ بڑے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ٹیکس ہدف 9 ہزار 200 ارب روپے سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی 50 کے بجائے 60 روپے کی جائے گی جبکہ جاری اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی کا فیصلہ بھی کیا جائے گا۔ نئے ٹیکس اقدامات کا حجم 223 ارب سے بڑھا کر 438 ارب کرنے جبکہ بی آئی ایس پی بجٹ 400 ارب سے بڑھا کر466 ارب مقرر کر دی گئی۔ اسی طرح 3 ہزار 200 ارب مالیت کے ٹیکس مقدمات نمٹانے کیلئے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ پنشن بل 761 ارب سے بڑھ کر 801 ارب تک پہنچ جائے گا۔ بجٹ میں صوبوں کا حصہ 5276 ارب سے بڑھ کر 5399 ارب ہوگیا۔ اگلے سال وفاقی حکومت کے اخراجات بڑھ کر 14 ہزار 480 ارب ہو جائیں گے۔

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزےر خزانہ سےنےٹر اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال 2023-24ء کے بجٹ پر قومی اسمبلی مےں بجٹ پر عام بحث کو سمےٹے ہوئے آئی اےف اےف کے ساتھ نوےں جائزہ کو پاےہ تکےل تک پہنچانے کے لئے 215 ارب روپے کے مذےد ٹےکس لگانے کا اعلان کےا ہے۔ اےف بی آر کا رےونےو ہدف 9200 ارب روپے سے بڑھا کر9400 ارب روپے کر دےا گےا۔ غےر متوقع آمدن پر ونڈ فال ٹےکس انفرادی طور پر نافذ نہےں ہو گا بلکہ ےہ پورے شعبہ پر نافذ کےا جائے گا۔ ےہ50فی صد تک لگ سکے گا، اس کے نفاذ کی معےاد پہلے گذشتہ پانچ سال تک رکھی گئی تھی اب اس معےاد کوگذشتہ تےن سال کر دےا گےا ہے۔ ےہ 2021ءسے نافذ ہو سکے گا۔ زےادہ بجلی خرچ کرنے والے پنکھوں پر دو ہزار روپے فی پنکھا اےکسائز ڈےوٹی لگائی گئی تھی، اس کو چھ ماہ کے لئے معطل کر دےا گےا اب ےہ ڈےوٹی ےکم جنوری2024ءسے وصول کی جائے گی۔ پنکھوں کے مےنوفےکچرر کو ٹےکنالوجی تبدےل کرنے کے لئے چھ ماہ کا وقت دے دےا گےا ہے۔ بی آئی اےس بی کا بجٹ 450 ارب روپے سے بڑھا کر466 ارب روپے کر دےا گےا۔ پےنشنرز بےنی فٹ اکاونٹ مےں سرماےہ کاری کی حد 50لاکھ روپے سے بڑھا کر75لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔ حکومت پٹرول اور ڈےزل پرلےوی60 روپے فی لےٹر تک نافذ کر سکے گی۔ ترسےلات کرنے والے بےرون ملک مقےم پاکستانےوں کے لئے 80 ارب روپے رکھ دئے گئے۔ سٹےٹ بنک ان کے لئے انعامی سکےم بھی شروع کرئے گا ،گرےڈ17ےا اس سے اوپر کے گرےڈ کے رےٹائر سرکاری افسر اب ملٹی پل پنشن کی بجائے صرف اےک پنشن وصول کر سکے گا ، رےٹائر ہونے کے بعد ملازمت کرنے کی صورت مےں پنشن ےا تنخواہ مےں سے صرف اےک وصول کی جا سکے گی، وزےر خزانہ نے کہا کہ رضا کارانہ پنشن سکےم شروع کرنا پڑے گی۔ کفائت شعاری کے اقدامات پر عمل آئندہ مالی سال مےں بھی جاری رہے گا، آئی اےم اےف کے ساتھ نوےں رےوےو کے لئے تمام نکات پر عمل کر دےا تھا، گذشتہ تےن روز مےں آئی اےم ایف کے ساتھ مسلسل مذاکرات کئے ہےں تاکہ رےوےو مکمل ہو سکے، لوگ کہتے ہےں کہ آئی اےم اےف نے رےوےو نہ کےا تو کےا ہو جائے گا ، ےہ نہ بھی ہو توگزارا ہو جاتا ہے ،مگر حکومت نے خلوص نےت سے کام کےا ہے، اللہ کرئے معاہدہ جلد ہو، حکومت نے مالی سال 2024ءکے بجٹ میں متعدد تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ رکے ہوئے پیکیج کو حاصل کرنے کی آخری کوشش کی جائے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے تمام نکات پر عمل کر چکی، اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی ملک دشمن پالیسیوں کی وجہ سے قوم کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کیے، مذاکرات کے نتیجے میں 215 ارب روپے کے ٹیکس ہم نے مانے ہیں۔ ہم نے کہا کہ یہ ٹیکس غریب طبقے پر نہیں لگے گا، ہم نے یہ بھی مانا ہے کہ اپنے جاری اخراجات میں کمی کریں گے۔ اخراجات کی مد میں 85 ارب روپے کی کٹوتی پر مانے ہیں، اس کٹوتی کا اثر تنخواہ یا پینشن پر نہیں پڑے گا، تجویز تھی کہ سیلری کلاس پر ٹیکس د±گنا کیا جائے مےں تو اس تجوےز پر بے ہوش ہو گےا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھا گیا کہ ٹیکس کا بوجھ غریب اور کمزور طبقات پر نہ پڑے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اخراجات کا تخمینہ 14 ہزار 480 روپے ہو جائے گا۔ بجٹ میں بہتری آئی ہے، مالیاتی خسارے میں 300 ارب کا فائدہ ہوگا، قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ مالی مشکلات کی کئی وجوہات ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہوئے، اللّٰہ کا شکر ہے ایسے جتھوں سے پاکستانی عوام باخبر ہوچکے ہیں، اگر عوام نے موقع دیا تو نامکمل معاشی ایجنڈا پورا کریں گے۔ 24ویں بڑی معیشت کا مقام جلد حاصل کریں گے، پاکستان کو جلد جی ٹوئنٹی میں شامل کریں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ رواں مالی سال میں سرکاری اخراجات پر 15 فیصد کٹوتی کی گئی، ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 360 ارب سے بڑھا کر 460 ارب روپے کر رہے ہیں، رمضان پیکیج کے لیے 5 ارب اور وزیر اعظم پیکیج کے تحت 34 ارب مختص کیے گئے، دفاعی بجٹ کے ضمن میں تمام ضروریات پوری کی جائیں گی۔ مسلح افواج کے بجٹ کو برقرار رکھا گیا ہے، نوجوانوں کے لیے 31 ارب روپے منظور کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن کی پنشن ساڑھے 8 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کر رہے ہیں۔ ایک سے زیادہ عہدوں پر رہنے والے کئی لوگ تین، تین پینشن بھی لے رہے ہیں، ایک سے زائد پینشن کا سلسلہ ختم کر رہے ہیں، صرف ایک پینشن ہی ملے گی، ریٹائرڈ ملازم اور شریک حیات کے انتقال کے بعد خاندان کے فرد کو صرف 10 سال پنشن ملے گی۔ سالانہ 35 سے 40 کروڑ روپے کمانے والی کمپنیوں پر 6 فیصد سپر ٹیکس عائد ہو گا۔ سالانہ 40 سے 50 کروڑ روپے کمانے والی کمپنیوں پر 8 فیصد سپر ٹیکس عائد ہو گا۔ پنکھے مہنگے نہیں کیے، بجلی بچانے کیلئے اقدام کیا، پنکھے بنانے والی کمپنیوں کو 6 مہینے کا وقت دیا ہے۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ اراکین پارلیمان کی جانب سے مختلف معاملات پر اہم تجاویز دی گئی ہیں۔ سینٹ سے 169 تجاویز موصول ہوئیں جن میں سے 19 عمومی نوعیت کی، پوری کوشش کی گئی ہے نان فائلرز کے بنک سے رقم نکالنے پر 0.6 فیصد کی شرح پر میں واضح کردوں کہ یہ معیشت کو دستاویزی بنانے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اہم قدم ہے۔ وفاقی حکومت کے تقریباً 32 کھرب روپے مختلف ٹیکس جوڈیشل فورم پر زیر التوا 62 ہزار مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں، جس کے جلد حل کے لیے آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن سی (اے ڈی آر) میں ٹیکس دہندگان کا ایک اور محکمے کا ایک نمائندہ شامل کرنے اور اس کی سربراہی ہائی کورٹ کے جج کو سونپنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اسلام آباد (خبر نگار) قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں مطالبات زرکی منظوری کا عمل مکمل، ایوان نے جاری اخراجات کیلئے 7081 ارب 34 کروڑ روپے سے زائد کے 133 مطالبات زر منظور کر لئے اور وزارت دفاع کے 1826 ارب 27 کروڑ روپے سے زائد کے چار مطالبات زر بھی منظور کر لئے گئے۔ اپوزیشن کی کٹوتی کی تمام تحاریک مسترد کر دی گئیں۔ کٹوتی کی تحاریک مولانا عبدالاکبر چترالی اوراسیہ عظیم نے پیش کیں جبکہ سائرہ بانو کی تحاریک ان کی غیر حاضری کی وجہ سے پیش نہ ہو سکیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار صبح دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں مولانا عبدالاکبر چترالی نے الزام لگایا کہ پارلیمنٹ لاجز میں منشیات فروشی ہو رہی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جس پر ن لیگ کے علی گوہر نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بدنام نہ کیا جائے۔ اگر کسی کو الرجی ہے تو وہ اس کا اعلاج کروائیں۔ اجلاس میں ہوا بازی ڈویژن کے 21 ارب 12 کروڑ 68 لاکھ روپے سے زائد، وزارت تجارت کے دس ارب 36 کروڑ روپے سے زائد ، وزارت دفاعی پیداوار کے 2 ارب 99 کروڑ 76 لاکھ روپے سے زائد، اقتصادی امور ڈویژن کے 17 ارب 22 کروڑ 48 لاکھ روپے سے زائد، تعلیم کے لئے 183 ارب 21 کروڑ روپے سے زائد، قومی ورثہ کے لئے 3 ارب 18 کروڑ 66 لاکھ روپے سے زائد، فنانس ڈویژن کے 2895 ارب 25 کروڑ روپے سے زائد، خارجہ امور کے لیے 46 ارب 92 کروڑ روپے سے زائد، ہاو¿سنگ و تعمیرات کے 49 ارب ایک کروڑ روپے سے زائد، انسانی حقوق ڈویژن‘ صنعت و پیداوار ڈویژن‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ بین الصوبائی رابطہ ڈویژن‘ امور کشمیر‘ قانون و انصاف ڈویژن‘ بحری امور‘ قومی اسمبلی کا 3 ارب 30 کروڑ روپے سے زائد کا ایک، سینٹ کا ایک ارب 77 کروڑ روپے سے زائد کا ایک، تحفظ خوراک ڈویژن‘ قومی صحت ڈویژن‘ اوورسیز پاکستانیز ڈویژن‘ منصوبہ بندی ڈویژن‘ تخفیف غربت ڈویژن‘ ریلوے‘ مذہبی امور‘ سائنس و ٹیکنالوجی ڈویژن‘ سرحدی امور‘ آبی وسائل‘ توانائی ڈویژن‘ پاور ڈویژن‘ پٹرولیم ڈویژن‘ اطلاعات و نشریات‘ کابینہ ڈویژن‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن‘ نیشنل سکیورٹی ڈویژن‘ مشترکہ مفادات کونسل‘ مواصلات ڈویژن‘ وزارت داخلہ اور منشیات ڈویژن کے مطالبات زر منظور کر لئے گئے۔

اسلام آباد (خبرنگار) قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قراداد کی منظوری دی ہے جس میں عالمی برادری، انٹر نیشنل تنظیموں، بیرون ملک مقیم مخیر پاکستانیوں اور سول سوسائٹی کی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں میں معاونت کو سراہا گیا ہے۔قومی اسمبلی میں وزیر مملکت اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی رومینہ خورشید عالم نے قراداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان بین الاقوامی تنظیموں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف پاکستان کی کوششوں کے لیے عالمی برادری کے تعاون اور موسمیاتی آفات سے متاثرہ کمزور طبقات کی بحالی میں ان کی امداد کو تسلیم کرتا ہے، ایوان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی تعاون کی فوری ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ ایوان محسوس کرتا ہے کہ شدید موسمی واقعات، جیسے کہ 2022 ءکے سیلاب نے خاص طور پر کمزور طبقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ موجودہ موسمیاتی مسائل میں اضافہ کیا ہے جس سے خواتین اور بچوں کو نفسیاتی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ یہ ایوان آب و ہوا سے متعلق بحرانوں کے پیش نظر معاشرے کے ان طبقات کے تحفظ اور ترقی کے لیے اجتماعی کاوشوں کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ یہ ایوان اسلامک ریلیف ورلڈ وائیڈ، اقوام متحدہ (یو۔ این) کے پاکستان کے موسمیاتی کاوشوں کو آگے بڑھانے میں ان کے اہم کردار کو سراہتا ہے۔ قومی اسمبلی نے قرارداد کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔ وفاقی وزیرآبی وسائل سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے زیریں اوردوردراز علاقوں میں آبپاشی کیلئے پانی کے مسائل موجود ہیں۔ نکات پر وفاقی وزیرنے کہاکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہماری ناکامی ہے، صرف سندھ میں 20 فیصدلائن لاسز ہیں۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کو استعداد کے مطابق پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے امور نوجواناں شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ نوجوانوں کو تربیت، ہنر اور روزگار کی فراہمی وزیراعظم محمد شہباز شریف کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ پی ٹی وی پرحملوں سے شروع ہونے والا سلسلہ جی ایچ کیو اور فوجی تنصیبات پرحملوں پر منتج ہوا، قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شزہ فاطمہ خواجہ نے کہاکہ ملک کی 70 فیصد آبادی نوجوان ہے‘ یہ وہ بچے اور بچیاں ہیں جن کو اگر ہم ایک اچھے انداز میں روزگار مہیا کر دیں اور انہیں باہنر کر دیں تو ملک کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا، سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اراکین قومی اسمبلی کے گیس سے متعلقہ مسائل کے حوالے سے نکتہ ہائے اعتراضات متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ عید کے فوری بعد کمیٹی کا اجلاس منعقد کر کے گیس سے متعلقہ مسائل حل کرائے جائیں۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کے رکن محمد ابوبکر نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ حیدر آباد کے اطراف سے ہمیں گیس ملنی چاہیے، کراچی میں بجلی کی فراہمی کے لئے اجارہ داری ختم کرنے کے لئے نجی شعبہ کو آگے لا کر مقابلہ کی فضا قائم کی جائے گی۔ محسن داوڑ نے کہا کہ شمالی وزیرستان سے گیس کے ایک ٹریلین کیوبک فٹ کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ شاہ زین بگٹی نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی اور جھل گسی میں بھی گیس کے مسائل ہیں۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا پوسٹل سروس میں تاریخی کرپشن ہوئی اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس معاملے کو ایف آئی اے کے حوالے کیا جائے۔ مولانا عبدالاکبرچترالی نے کہاکہ مردم شماری میں چترال کے اساتذہ نے ڈیوٹی کی ہے ان کو معاوضہ دیا جائے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو بھی وزیر اعظم پروگرام میں شامل کیا جائے۔ مدارس کے بچوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ رکن اسمبلی راﺅ محمد اجمل خان نے کہاکہ لوڈشیڈنگ 8گھنٹے ہو رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...