بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کر کے امریکہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسے اپنے مفادات عزیز یہ اور وہ بالخصوص پاکستان کے معاملے بھارت کے ساتھ ناصرف نرم رویہ اختیار کرتا ہے بلکہ بھارت کو غیر ضروری رعایتیں بھی دیتا ہے۔ ایک بڑے اور طاقتور ملک کی حیثیت سے امریکہ کا یہ رویہ ناصرف ناانصافی پر مبنی ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن میں بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ بھارت کی طرف امریکی جھکاو¿ انسانیت اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس پر آگے بات کرتے ہیں کہ کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت پر جو بائیڈن کو مظلوم کشمیریوں پر ہونے والا تشدد اور کلبھوشن جادیو کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں پر سانپ کیوں سونگھتا ہے۔ آج اس یکطرفہ اعلامیہ کی دھجیاں اڑانے کے لیے کچھ خبریں بھی آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
امریکہ اور بھارت نے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان سے بھارت کو نشانہ بنانے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکا اور بھارت نے عالمی دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ساتھ کھڑے رہنے، ہر طرح کی دہشتگردی اور پرتشدد انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین سمیت اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشتگرد گروہوں کے خلاف اجتماعی طور پر کارروائی کی جائے۔دونوں رہنماو¿ں نے سرحد پار دہشتگردی اور دہشتگرد پراکیسز کی بھی مذمت کی اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور کارروائی کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اس کے زیر اثر کوئی علاقہ دہشتگردانہ حملوں کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ جو بائیڈن اور نریندرا مودی نے ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا بھی مطالبہ کیا۔
جو بائیڈن لگتا ہے بھارت کی محبت میں دیوانے ہو چکے ہیں اور نریندرا مودی جیسے شخص جسے مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے" قصائی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس کے دور حکومت میں بھارت ہندوو¿ں کے سوا ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے رہنے کی خطرناک ترین جگہ بنتا جا رہا ہے۔ بھارت جہاں بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں پھیلنے والی بدامنی کے پیچھے واضح طور پر بھارتی نظر آتے ہیں ان کی افواج کے افسران کو پاکستان گرفتار کر چکا ہے، ماضی قریب میں افغانستان کے ذریعے بھی بھارت پاکستان میں بدامنی پھیلاتا رہا ہے۔ ان حقائق کے باوجود اگر امریکی صدر جو بائیڈن نے صرف نریندرا مودی کی باتیں سن کر اعلامیہ جاری کرنا ہے تو کرتے رہیں۔ تاریخ انہیں ایک جانبدار اور متعصب حکمران کے طور پر یاد رکھے گی۔ سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ کو سولہ سال گذر گئے کیا جو بائیڈن کو یہ کسی نے نہیں بتایا ان تک غلط معلومات پہنچانے والے نریندرا مودی نے سمجھوتہ ایکسپریس سانحے کی حقیقت کیوں نہیں بتائی، گجرات میں انسانیت کے قتل عام کے اپنے شرمناک واقعات کیوں نہیں بتائے۔ پاکستان آج بھی بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پاکستان آج بھی بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کو بطور ریاستی ہتھیار استعمال کرنا بند کرے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس سانحے پر معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے بھارت میں ہونے والا عدالتی ٹرائل غیر شفاف ہے۔ سانحے میں ملوث واضح کرداروں کو باعزت بری کرنا قابل مذمت ہے۔ یہ کس قسم کا مشترکہ اعلامیہ ہے جس میں دوسرے فریق کو سنے اور حقائق دیکھے بغیر فیصلہ سنایا گیا ہے۔ جو بائیڈن مشترکہ اعلامیہ جاری کر رہے ہیں جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ اگر نریندرا مودی کی حکومت بھارت کی نسلی اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کرے گی تو بھارت کا شیرازہ بکھرنے کا خطرہ ہے۔ سابق امریکی صدر نے مطالبہ کیا تھا کہ نریندرا مودی کے ساتھ ملاقات میں صدر بائیڈن کو ہندو اکثریت والے بھارت میں مسلم اقلیت کے تحفظ کا معاملہ ضرور اٹھانا چاہیے۔ برطانوی جریدے نے بھی اپنی خصوصی رپورٹ میں بھارتی جمہوریت کو ’جزوی جمہوریت‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نریندرا مودی کی قوم پرستانہ قیادت میں بھارت جمہوریت کی عالمی درجہ بندیوں میں مسلسل نیچے کی طرف آتا جا رہا ہے۔ بھارت اب مکمل جمہوری ملک نہیں رہا بلکہ ناقص اور جزوی جمہوریت ہے اور منتخب آمریت کے ز±مرے میں آتا ہے۔ ان حالات میں جو بائیڈن اور نریندرا مودی کے اعلامیے کی کیا حیثیت باقی رہتی ہے۔
برطانوی میڈیا نے مودی سرکار کی نام نہاد جمہوریت کا بھانڈا پھوڑا ہے تو سابق امریکی صدر بارک اوباما نے بھی بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ دنیا بھر میں سکھ ریفرنڈم کروا رہے ہیں۔ جناب بائیڈن اپنے ملکوں کی سڑکوں سے ہی کوئی تصاویر منگوا لیتے کہ وہں سکھوں نے کیسے نریندرا مودی کا استقبال کیا ہے۔
بھارتی وزیراعظم کو دورہ امریکا کے دوران مختلف مقامات پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات کے دوران وائٹ ہاو¿س کے باہر احتجاج ہوا جب کہ سکھوں نے انڈیا شیم شیم اور گو بیک مودی کے نعرے بھی لگائے۔ اس موقع پر نریندرا مودی کے خلاف مختلف ٹرکوں پر نعرے بھی درج تھے۔ بعض مقامات پر مودی مخالف دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بھارتی وزیراعظم کے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں امریکی صدر کی ڈیموکریٹک پارٹی کے چھ اراکین نے ناصرف نریندرا مودی پر تنقید کی بلکہ بھارتی وزیراعظم کی تقریر کا بائیکاٹ بھی کیا۔ مودی کی تقریر کا بائیکاٹ کرنے والی مسلم رکن رشیدہ طیب نے کہاکہ مودی سرکار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، غیرجمہوری اقدامات، اقلیتوں کو ہدف بنانے اور صحافتی پابندیوں میں ملوث رہی ہے جو ناقابل قبول ہے۔
جناب جو بائیڈن آپ نے پاکستان مخالف اقدامات پر مشترکہ اعلامیہ تو جاری کر دیا لیکن کاش یہ بھی سوچتے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کون لڑتا رہا ہے اور بھارت جیسا ملک ہمیشہ دہشتگردوں کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے دنیا کو دہشتگردی سے بچانے کے لیے ستر ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے، کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے۔ دہشتگردی نے جتنا نقصان پاکستان کو پہنچایا ہے کسی ملک کے شہریوں کو ایسی تکلیف برداشت نہیں کرنا پڑی۔ فلسطین میں اسرائیلی افواج کی دہشتگردی جاری ہے لیکن وہاں تو کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوتا۔ دنیا کی ایک بڑی طاقت کا کسی ایک ملک کی طرف غیر ضروری جھکاو مسائل پیدا کرتا ہے۔ یہ مشترکہ اعلامیہ حقائق کے منافی اور یکطرفہ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
آخر میں رشید قیصرانی کا کلام
میرے لیے تو حرف دعا ہو گیا وہ شخص
سارے دکھوں کی جیسے دوا ہو گیا وہ شخص
میں آسماں پہ تھا تو زمیں کی کشش تھا وہ
اترا زمین پر تو ہوا ہو گیا وہ شخص
سوچوں بھی اب اسے تو تخیل کے پر جلیں
مجھ سے جدا ہوا تو خدا ہو گیا وہ شخص
سب اشک پی گیا مرے اندر کا آدمی
میں خشک ہو گیا ہوں ہرا ہو گیا وہ شخص
میں اس کا ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً
سمٹا سمٹ کے رنگ حنا ہو گیا وہ شخص
یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہو گیا وہ شخص
پڑھتا تھا میں نماز سمجھ کر اسے رشید
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے قضا ہو گیا وہ شخص