شہباز شریف جس نیت سے کام کرتے ہیں، ان سے بہتر کوئی نہیں دیکھا: بلاول
ابھی چند روز پہلے کی بات ہے، سیاسی میدان میں پیپلز پارٹی کے دوسرے اور تیسرے درجہ کے سیاستداں اور رہنما اپنے اتحاد مسلم لیگ(نون) کے وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف کچھ اس انداز میں بول رہے تھے کہ گویا جلد ہی اس اتحاد کا تاروپور بکھرنے والا ہے۔ شعلہ اگلتی زبانیں خاموش ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ مخالفین نے بھی اس آگ کو خوب ہوا دی اور کہا کہ مسلم لیگ(نون) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ خود بلاول نے بھی جلسوں اور پبلک تقاریب میں شہباز شریف اور مسلم لیگ کی حکومت کے بعض فیصلوں سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی۔ مگر اب دیکھ لیں یہ پل میں کیسا ماحول بدلا۔ جہاں سے گرم جھلسا دینے والی ہوا کے تھپیڑے آ رہے تھے وہاں سے اچانک سائبریا کی ٹھنڈی ہوائیں آنے لگی ہیں۔ سب جانتے ہیں اس وقت وفاق میں جو حکومت ہے وہ اتحادی حکومت ہے۔ اس میں مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا بڑا حصہ ہے۔ باقی جماعتیں بھی حصہ بقدر جثہ شامل ہیں۔ اب صرف اس لئے شہباز شریف کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ لگتا ہے آصف زرداری نے صحتیابی کے بعد اِدھر اْدھر ادھم مچانے والے شتونگڑوں کے کان کھینچے ہیں جس کے بعد سب لائن پر آگئے ہیں۔ جبھی تو آج پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول کی زبان بھی شہد سے زیادہ میٹھی ہوگئی ہے اور وہ شہباز شریف کی ذات اور ان کے کاموں پر صدقے واری جا رہے ہیں اور کھل کر اعتراف سے کر رہے ہیں کہ شہباز سے بہتر کام کوئی نہیں کر سکتا گویا وہ بھی شہباز سپیڈ کے قائل ہوگئے ہیں۔
٭٭٭٭
ملک بھر میں مویشی منڈیاں سج گئیں، جانور موجود خریدار غائب
ویسے تو رونق میلہ خوب نظر آرہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بیوپاری رو رہے ہیں کہ جانوروں کو اتنی محنت سے پالا ، ان پر اتنا خرچ کیا، منڈیوں تک لانے کے لئے اخراجات بھی اٹھائے اب یہاں بھی خرچہ ہو رہا ہے۔ منڈی انتظامیہ بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے مگر ابھی تک خریداری کا وہ ماحول نہیں بن رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ ان کا گلہ بھی بجا ہے ماحول بنے بھی تو کیسے بنے مہنگائی نے اچھے بھلے سفید پوش طبقے کو بھی کنگالوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے ہر چیز کی طرح جانوروں کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔ پہلے جو بکرا، دنبہ یا بھیڑ ذبح کرتے تھے اب گائے کی قربانی میں حصہ ڈالنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اکثریت تو اس کی سکت بھی نہیں رکھتی۔ ایسے میں وہ دکاندار بھی رو رہے ہیں جو قربانی کے جانوروں کو پہنایا جانے والا آرائشی سامان فروخت کرتے تھے۔ ان کے گاہک بھی لگتا ہے ان سے روٹھ گئے ہیں۔ جب جانور ہی نہیں خریدے جا رہے تو ان کا آرائشی سامان کون خریدے گا؟ بچے الگ رو روے ہیں والدین کو تنگ کر رہے ہیں کہ ہم نے بھی بکرا لینا ہے۔ وہ کیا جانیں مارکیٹ کیا ہے، ریٹ کیا ہیں انہیں تو بس قربانی کا جانور چاہئے جو والدین اپنی لاکھوں خواہشیں قربان کرنے کے باوجود خریدنے سے قاصر نظر آتے ہیں پہلے یہی عید جب آتی تھی تو گلی محلوں بیشتر گھروں میں جانوروں کی بھاں بھاں سنائی دیتی تھی اب تو یہ عالم ہے کہ دور تک کہیں سے کوئی آواز نہیں آرہی۔ عیدالاضحی میں چار دن رہ گئے ہیں مگر خریداروں میں حوصلہ نہیں کہ اتنے مہنگے جانور خرید سکیں۔ دیکھتے ہیں کب اس مہنگائی سے جان چھوٹتی ہے اور عیدالاضحی کی رونقیں پھر بحال ہوتی ہیں؟؟
٭٭٭٭
13 کروڑ روپے میں خلا کی سیر،امریکی کمپنی کی پہلی پرواز27 جون کو روانہ ہوگی
بے شک انسان بہت جلد باز(تالا) ہے۔ ایک لمحے میں سب کچھ بھول بھال کر نئی راہوں کا مسافر بن جاتا ہے۔ بڑے سے بڑا حادثہ بھی اسے چند لمحوں سے زیادہ مہبوت نہیں کرتا۔ شاید اسی کانام زندگی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں غرق شدہ بحری جہاز ٹائیٹینک کے ملبہ کا نظارہ کرنے کے لئے جانے والی آبدوز کی تباہی کا ہولناک حادثہ چند روز پہلے کا ہے۔ جس میں اڑھائی کروڑ فی کس ٹکٹ لے کر سمندر کی تہہ میں سیر کے ٹائی ٹینک کا ڈھانچہ دیکھنے والے 5 افراد جن میں پاکستانی باپ بیٹا بھی شامل تھے’’رزق آب‘‘ ہوگئے، مگر دوسری طرف ایک امریکی کمپنی انسانوں کو خلا کی سیر کرانے کے لئے 13 کروڑ روپے مالیت کے ٹکٹ فروخت کر رہی اور اس کا خلائی جہاز27 جون کو نجانے کتنے مسافروں کو خلا کی وسعتوں کی سیر کرائے گا۔ جہاں کبھی انسانی دماغ قدم رکھنے کا نہیں سوچ سکتا تھا آج وہاں انسان خود پہنچ کر وہاں کا مشاہدہ کریں گے۔ زمین سے کروڑوں میل دور سے جہاں سے زمین بھی ایک چھوٹا ستارہ ہی نظر آتی ہے۔ نہ روشنی نہ تاریکی، عجب ایک عجیب پر ہول سناٹا چاروں طرف چھایا ہوا نظر آتا ہے اور دور ٹمٹماتے ہوئے ستارے اور سیارے نظر آتے ہیں۔ اب بقول ادا جعفری۔
ویرانیاں دلوں کی بھی کچھ کم نہ تھیں ادا
کیا ڈھونڈنے گئے ہیں مسافر خلائوں میں
زمین پر رہنے والے کیا کم تھے کہ اب لوگ سمندر کی تہہ میں آسمان کی وسعتوں میں نجانے کیا ڈھونڈنے جا رہے ہیں۔ خدا کرے یہ کم ازکم یہ لوگ ہی سلامت لوٹ آئیں ورنہ سمندر سے ملبہ تلاش کرنا تو آسان ہے مگر خلا میں بکھرنے والوں کو کھونے والوں کو کھوجنا مشکل ناممکن ہے۔
٭٭٭٭
مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ کے خلاف اداروں کو دھمکیاں دینے پر مقدمہ
سانحہ9 مئی کے بعد لگتا ہے ملزمان کے ساتھ کارروائی میں تاخیر سے ایک بارپھر دہشت گردی کا پرچار کرنے والوں کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں اور سردی سے اکڑے مردہ نظر آنے والے سانپ ایک بار پھر حرکت کرنے لگے ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں کہ جرم کی سزا فوری نہ ملے تو نظام انصاف پر حرف آتا ہے۔ دوسروں کو شہہ ملتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں پہلے علی وزیر کی زبان آگ اْگلتی نظر آئی وہ اْول فول کہتے رہے اب حوالات کی سیر کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھی یہی سمجھا ہوگا کہ جب فوجی تنصیبات پر حملے والوں کو رعایت مل رہی ہے تو مھے کون پکڑے گا۔ وہ تو چلیں ایم این اے جس اسمبلی میں آئین پاکستان کی پاسداری کا حلف اٹھا کر بیٹھے ہیں اس میں سب کے سامنے بانی پاکستان کی تصویر لگی ہوتی ہے۔
اس کے باوجود اگر کوئی چاند پہ تھوکتا ہے تو وہ اس کے منہ پر آتا ہے۔ اب دوسری طرف اسلام آباد میں لال مسجد کے مہربان بھی باہر نکل پڑے ہیں۔ اطلاع تھی کہ مولانا عبدالعزیز جی ہاں! وہی ’’برقع پوش‘‘ کو گرفتار کیا گیا ہے تو ان کی اہلیہ جو لڑکیوں کے مدرسے کی منتظمہ بھی ہیں پھر ڈنڈے اٹھائے برقع پوش خواتین کے ساتھ روڈ بلاک کرنے نکل پڑی پولیس نے روکا تو میڈیا کے سامنے دھمکیاں دینے لگیں کہ تم لوگ خودکش دھماکے بھول گئے ہو اب ایک اور ہوگا تو سب کو پتہ لگ جائے گا۔کیا یہ زبان ہوتی ہے اسلامی تعلیمات کا درس دینے والے کی۔ علماء کرام کی اکثریت خودکش حملے حرام قرار دے چکی ہے مگر محترمہ کا بیانیہ ہی الگ ہے۔ اپنے شوہر کی خاطر درجنوں انسانی زندگیوں کو دھماکے سے اڑانے کی دھمکیاں دے رہی ہیں پھر جب ان کے خلاف ایکشن ہو تو یہ سب مظلوم بن جاتے ہیں۔ اسی سوچ نے لال مسجد کو داعش کا مرکز بنا کر سمجھ لیا تھا کہ اب ملک پر ہمارا قبضہ ہوگا جس کے نتیجے میں بے گناہ طالبات سمیت کئی جانیں گئیں لگتا ہے کھچڑی پکنا ابھی بند نہیں ہوئی جبھی تو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس لہجے اور زبان میں باتیں کرنے والوں کا سدِباب ضروری ہے تاکہ ملک کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکے۔