پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں کی چھ رکنی اولین ٹیم نے پیر کو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کےٹو سر کرنے کے اپنے مشن کا آغاز کیا۔ یہ مشن اس امید کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ وہ چوٹی کو فتح کریں گی اور ملک میں خواتین سے وابستہ فرسودہ صنفی تصورات کا خاتمہ کریں گی۔اس ٹیم میں لاہور سے تعلق رکھنے والی پیشہ ور خواتین کوہ پیما انعم عزیر، گلگت بلتستان کے ضلع گھانچے کی وادی ہشے سے تعلق رکھنے والی دو بہنیں آمنہ حنیف اور صدیقہ حنیف، شمالی پاکستان کے ہنزہ سے تعلق رکھنے والی بی بی افزوں اور سلطانہ نصیب اور شمع باقر شامل ہیں۔
45 روزہ مہم کا اہتمام پہاڑی سفر اور کوہ پیمائی کی ایک کمپنی ایمیجن کلائم کر رہی ہے جسے پاکستانی کوہ پیما سرباز خان چلا رہے ہیں اور اس کی سرپرستی پاکستانی فوج کر رہی ہے۔ خان جو دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 11 کو سر کرنے والے اولین اور واحد پاکستانی ہیں، اپنی 45 روزہ مہم میں خواتین ٹیم کی قیادت کریں گے۔
عرب نیوز کے مطابق پاکستان کے شمالی گلگت بلتستان کے علاقے میں واقع اور کوہ پیماؤں میں “وحشی پہاڑ” کے نام سے مشہور کے ٹو کو اکثر دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے زیادہ مشکل بلندی سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے کئی کوہ پیما پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے کی جستجو میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔عزیر اور ان کے شوہر احمد عزیر ستمبر 2023 میں نیپال کے بلند و بالا پہاڑ مناسلو کو سر کرنے والی اولین پاکستانی میاں بیوی بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ کے ٹو جتنے خطرناک پہاڑ پر چڑھنے کے چیلنج نے انہیں ہمیشہ “مسحور” کیا ہے۔مرحوم لیجنڈری پاکستانی کوہ پیما لٹل کریم کی پوتی آمنہ حنیف نے کہا کہ انہیں کوہ پیمائی میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ ان کے والد اور دادا دونوں کا یہی پیشہ تھا۔انہوں نے کہا کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جینیاتی طور پر اس شعبے سے وابستہ ہیں اس لیے میرے لیے کوئی مشکلات نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں نے پاکستان، اسپین اور ایران میں سات پہاڑ سر کیے ہیں۔