بجلی کے فکسڈ جارچز میں اضافہ

Jun 25, 2024

اداریہ

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا )کی طرف سے بجلی کے استعمال پر یکم جولائی سے فکس چارجز میں اضافہ پر صنعتی سیکٹر نے تشویش کااظہار کیا ہے اور کہاہے کہ اس اضافے کی وجہ سے پہلے سے بحران کا شکار انڈسٹری تباہ ہو جائےگی۔انڈسٹریل ایسوسی ایشن اسلام آباد کے صدر ناصر قریشی نے کہا کہ یکم جولائی سے جس طرح بجلی کے نرخوں پر نظر ثانی کی جا رہی ہے، اس کی موجودگی میں صنعتوں کو چلانا ناممکن ہو جائےگا۔ بجلی پر فکسڈ چارجز کے علاوہ بنیادی ٹیرف پر بھی یکم جولائی سے نظر ثانی کی جا رہی ہے، آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت فی یونٹ بجلی کا ریٹ بہت بڑھ جائےگا۔ واضح رہے کہ نیپرا کی طرف سے جاری ہونے والے ایک حکم نامے کے مطابق 25 کے ڈبلیو کیو او یو میٹرنگ کے تحت آنے والوں پر فکسڈ چارجز ایک ہزار روپے کر دیئے گئے ہیں جبکہ 500 کے وی تک بجلی استعمال کرنے والے بی ٹو کیٹگری میں آنے والوں پر چارجز میں 300 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ بی تھری کیٹگری میں آنے والے صنعتی کنزیومرز جو 500 کے ڈبلیو بجلی استعمال کرتے ہیں ان کیلئے اضافہ 335 فیصد کیا گیا ہے۔
ایک طرف وزیراعظم شہبازشریف ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے دن رات جدوجہد کر رہے ہیں تاکہ معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کیا جا سکے‘ اس کیلئے وہ چین‘ سعودی عرب‘ عرب امارات کے دورے کرکے انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے آمادہ بھی کر چکے ہیں‘ جبکہ دوسری جانب نیپرا بجلی کے فکسڈ جارچز میں اضافہ کرکے ملکی صنعتی سیکٹر کیلئے نہ صرف مشکلات پیدا کر رہا ہے بلکہ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے وزیراعظم کی کوششوں کو بے ثمر کرتا نظر آرہا ہے جبکہ اس سے صنعتی سیکٹر کو تباہی کا الگ سامنا کرنا پڑیگا۔ اس تناظر میں بیرونی سرمایہ کاروں کو کس طرح ملک میں سرمایہ کاری کیلئے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگی بجلی‘ بدترین مہنگائی اور ناسازگار حالات کے باعث کئی پاکستانی صنعت کار اور تاجر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا سرمایہ اور کاروبار دوسرے ملکوں میں منتقل کر چکے ہیں۔ ان حالات میں جو صنعت کار جیسے تیسے اپنی صنعت کا پہیہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ اپنی لاگت بھی پوری نہیں کر پا رہے۔ ایک طرف حکومت صنعتی سیکٹر کو ترقی دینے کیلئے قومی بجٹ میں صنعتکاروں کو ہر ممکن ریلیف دینے اور انہیں سستی بجلی فراہم کرنے کا اعلان کر چکی ہے جبکہ دوسری طرف نیپرا کی جانب سے فکسڈ چارجز میں اضافہ کرکے حکومتی ریلیف پر پانی پھیر دیا گیا جس سے نہ صرف حکومتی رٹ چیلنج ہوتی نظر آرہی ہے بلکہ پاور سیکٹر کے سامنے اسکی بے بسی کا بھی تاثر پختہ ہو رہا ہے۔ ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ گزشتہ تین ماہ سے مسلسل نیچے آرہے ہیں مگر نجی کمپنیوں کی جانب سے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہر دوسرے تیسرے روز بجلی کے نرخوں میں من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ بجلی کی قیمتیں جس بلند ترین سطح پر پہنچا دی گئی ہیں‘ آنیوالے وقت میں بجلی کا استعمال عام آدمی کیلئے ایک ڈراﺅنا خواب بن کر رہ جائیگا۔ سوال یہ ہے کہ بجلی‘ گیس اور پانی کے بلوں میں بھاری ٹیکسوں سے جمع ہونے والے اربوں روپے سے نہ تو ملک کے قرضے کم ہوتے نظر آرہے ہیں اور نہ مہنگائی کے طوفانوں میں کمی آرہی ہے۔ قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ خطیر رقم کہاں استعمال ہو رہی ہے اور کن کی تجوریوں میں جا رہی ہے۔

مزیدخبریں