سعادت حسن منٹو کے پاس ایک صاحب آئے اور فرمائش کی کہ انکے والد کی برسی ہے جس پر وہ اپنے رسالے کا ”والد نمبر“ نکالنا چاہتے ہیں براہ کرم انہیں ایک افسانہ تحریر کرکے دیا جائے۔ منٹو نے حامی بھر کر دام بتائے تو یہ صاحب سوچ میں گم واپس چلے گئے۔ بعد میں دوبارہ آئے اور عرض کیا کہ ”والد نمبر“ ہے رعایت کر د یں۔ اس پر منٹو نے اپنے روایتی انداز میں کہا کہ آپ اپنے والد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ”والد نمبر“ نکالنا چاہتے ہیں اور مجھے اتنے پیسے بھی دینے پر آمادہ نہیں کہ اپنے والد کی قبر پر چار پھول ڈال سکوں۔
جمہوریتیں بنیادی حقوق کی فراہمی کا نام ہوا کرتی ہیں۔ محض انتخابات کے روز ووٹ ڈالنے اور اپنی پریشانیوں کو ریاست کا وجود محسوس کئے بغیر حل کرنے کا نام جمہوریت تو کیا ریاست بھی نہیں۔
جسطرح آزادی سے اپنے حق رائے دہی کا استعمال جمہوریت ہے اسی طرح لوگوں کو ایک جیسے ماحول میں زندہ رہنے، پھلنے پھولنے دینے کا نام بھی جمہوریت ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو دودھ، شہد کی نہریں ہوں اور دوسری طرف ”ہمی قتل ہو آئیں یارو چلو“ کی صدائیں اور دونوں ایک سے جذبے کے ساتھ ووٹ کا حق استعمال کریں؟ ایک جانب نعمتوں کے انبار لگے ہوں، دوسری طرف محرومیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ہوں تو ساحرکی بات ہی سچی ہوگی کہ ”بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی۔“
اگر ریاست کے عوام کی اکثریت محرومیوں میں عمر گزار رہی ہوں تو ووٹ کے نام پر لوگوں کو گنا ہی جا سکتا ہے تولا نہیں جا سکتا۔ یعنی اشرافیہ کا اگر ”والد نمبر“ نکالنے کا موڈ ہو تو عام آدمی کو کم از کم اپنے والد کی قبر پر چار پھول ڈالنے کے وسائل تو ضرور ملنے چاہئیں تب ہی بات بنے گی ورنہ چال بے ڈھنگی ہی رہے گی۔
لبرل ڈیموکریسی کا ایک تصور یہ بھی ہے کہ عوام ایک سسٹم کی طرف جائیں، پاپولر جمہوریت شخصیت پرستی کی طرف لے جاتی ہے اور ”شخصیت ختم بات ہضم ہو جاتی ہے“۔ یعنی صرف جمہوری گلاس ٹوٹتا ہے اور کچھ کھائے پیئے بغیر بارہ آنے الگ سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔
یاشا مونک ( Monnk yascha) جو جرمن نڑاد امریکی سیاسی فلاسفر ہیں انہوں نے اپنی کتاب (People Versus democracy) میں اس نکتہ پر تفصیلی بات کی ہے کہ کس طرح آئیڈیل ازم کا شکار ہو کر عوام لبرل ڈیموکریسی کے لئے نقصان کا باعث بن جاتے ہیں اور شخصیت پرستی کو پروان چڑھا دیتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو سچ ہی ہے کہ اگر عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں آئیں گی تو پھر ان کی وابستگی سسٹم، جمہوری نظام اور آئیڈیالوجی کی بجائے شخصیات اور ان کے دکھائے سہانے خوابوں کے ساتھ ہی پختہ ہو گی۔ وہ حقائق سے لاتعلق کسی ویرانے کا اچھا سا نام رکھنے میں ہی مشغول رہیں گے اور حقائق کی بارشیں کہیں اور جا برسیں گی۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ہیلری کلنٹن کا موقف زیادہ حقیقت پسندانہ تھا کہ آٹومیشن کے دور میں سٹیل کے بڑے بڑے کارخانوں میں دوبارہ پانچ پانچ سو ملازمین کا بھرتی ہونا ممکن نہیں رہا لیکن ٹرمپ نے لوگوں کو خواب دکھائے اور امریکی صدر بن گئے۔ سوچئے امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اگر ووٹر خواب دیکھ کر نیند میں ووٹ ڈال سکتے ہیں تو ہم کس شمار میں ہیں؟ یقینناً ہماری کیفیت تو انتظار حسین کی کہانی مہابن کے بندروں جیسی ہو جائے گی جو گڑ کی بھیلی اور تھوڑے سے چنوں کے لئے ایک دوسرے کو ڈنڈے مار مار کر ہلکان کر دیتے تھے اور دنیا کی نظر میں مذاق بن کر رہ گئے تھے۔
ہمارے ہاں بڑے بڑے عوامی ایوانوں میں کہ جہاں عوام کا داخلہ ممنوع ہی رہتا ہے تاکہ غور و فکر میں خلل نہ پڑے۔ لازمی طور پرسوچ بچار ہو رہی ہوگی اور معاملات خیالی محلات سے اوپر اٹھ کر حقیقت کا روپ دھارنے کی تیاری کر رہے ہونگے۔ عوامی فلاح کے بڑے بڑے منصوبوں میں رنگ بھرے جا رہے ہوں گے لیکن یہ اس سب کے لئے ذرا جلدی کرنے کی ضرورت ہے کہ ”مٹ جائے کی مخلوق تو انصاف کرو گے“ والی صورتحال سے بچنا ضروری ہے۔
بہت اچھا ہوا ہم بطور ملک ڈیفالٹ سے بچ گئے کہ مشہور سیاسی فلاسفر تھامس ہابزکے مطابق ریاست کا سایہ سر پر سلامت نہ رہے تو عوام بے یارومدد گار ہو جاتے ہیں۔ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا لیکن عوام بڑی تیزی سے ڈیفالٹ کی طرف جا رہے ہیں اس کا حل انہیں آٹے کے تھیلے اور قطار اندر قطار کھڑا کر کے پیسے دینے میں نہیں بلکہ بڑے بڑے فیصلے کرنے میں ہے۔ پہلے تو سبسڈی کے نام پر اشرافیہ کی عیاشیاں مکمل بندکی جائیں۔ کتنا غیر حقیقی لگتا ہے جب سوچا جائے کہ 25 ہزار تنخواہ پانے والا غریب تو بجلی، گیس اور پٹرول جیب سے خریدے گا اس کے بچوں کی فیس معافی کے لئے کوئی قانون بھی نہیں آئے گا اور جب وہ اور اس کا خاندان بیمار ہوں گے تو سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے نام پر دھکے الگ سے کھائیں گے اور دوسری طرف وہ لاکھوں کروڑوں کمانے والے نام نہاد ”پِیرانِ کرامات“ جن کی اکثریت اپنے ایک ایک عمل اور قول سے بیڑہ پار کی بجائے غرق کرنے میں منہمک ہے۔ بہترین اشیائ خورد و نوش، محلات نما رہائشیں اور علاج معالجے، تعلیم کی گرانقدر سہولتیں ان کے گھر کی لونڈیاں ہیں اوپر سے ان پر مال مفت کی برسات ....یہ سب چہ معنی دارد؟
دوسرا فیصلہ سخت قسم کے معاہدوں پر نظرثانی ہے۔ کچھ بھی کریں جو بھی قانونی موشگافیاں آزمائیں قوم پر مسلط ایسٹ انڈیا ٹائپ معاہدوں سے چھٹکارا حاصل کریں اگر آئی پی پیز کی موجودگی میں بجلی سستی نہیں ہوسکتی تو اسے پہلی مثال بنائیں۔ توانائی سستی ہوگی تو صنعتیں چلیں، ایکسپورٹ بڑھے گی، ڈالر آئیں گے۔ عوام کو سستی اشیائ ملیں گی اور حکمرانوں کو بھی کشکول لے کرکسی کے در پر حاضری نہیں دینی پڑے گی۔ ظالمانہ معاہدوں کی موجودگی میں بہتری کے لئے کوششیں ویسی ہی ثابت ہونگی جیسی یاجوج ماجوج دیوار چاٹنے کے لئے کر رہے ہیں۔
ہابز کا زمانہ بادشاہوں اور رعایا کا دور تھا۔ آج کا دور عوامی دور ہے اب زمین کے ٹکڑے نہیں عوام ہی ریاست ہوتے ہیں اس لئے عوام کو بچائیں سہولتیں دیں یکساں مواقع فراہم کریں اور زندہ درگور نہ ہونے دیں۔
کلیلہ و دمنہ کی ایک حکایت یاد آگئی کہ بادشاہ تھا بڑا ظالم ہر وقت اپنی رعایا پر ظلم کرنے اور ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے بہانے تراشا کرتا تھا اور لوگوں کو قائل کیا کرتا تھا کہ ریاست کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے مشکلات کا سامنا ضروری ہے اور آپ نے گھبرانا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایک روز وہ شکار پر گیا واپس آیا تو اس کی کایا ہی پلٹ چکی تھی اور اس کے ذہن میں ہر وقت عوام کی فلاح و بہبود اور انصاف کی فراہمی کی باتیں گردش کرنے لگی تھیں۔ نہ صرف باتیں گردش کرنے لگی تھیں بلکہ وہ انہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی مصروف عمل رہنے لگا۔ ایک روز موقع پا کر اس کے کسی دوست نے اس کایا کلپ کا راز پوچھا تو اس نے کہا میں نے جنگل میں دیکھا کہ ایک لومڑی کی ٹانگ ایک کتے نے کھا لی پھر اس کتے کی ٹانگ کو بھیڑیئے نے بھنبھوڑ ڈالا اور وہ بھیڑیا ایک اونچی جگہ سے گر کر اپنی ٹانگ گنوا بیٹھا تو میں نے محسوس کیا کہ انسان ہو یا جانور جو عمل وہ کرتا ہے وہ پلٹ کر اس کی طرف آتا ضرور ہے۔ اس بات نے مجھے ظلم سے توبہ پر مائل کر دیا۔
یاد رکھیں آپ جو بھی عمل کرتے ہیں لوٹ کر آپ کی طرف ضرور آتا ہے۔
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
٭....٭....٭
اچھے مسیحا ہو، شفا کیوں نہیں دیتے؟
Jun 25, 2024