اقبال کا ہر نقشِ کہن مٹانے کا ادھورا خواب

پچھلے دنوں ایک نایاب ویڈیو میرے ہاتھ لگی جو میں نے اپنے یوٹیوب چینل پر بھی لگادی ہے۔ اس ویڈیو میں ہماری ارض وطن کے شاندار‘ باوقار‘ خوشحال اور قابل فخر ماضی کی جھلک دکھائی گئی ہے جسے دیکھ کر ایک لمحہ کو تو میں بھی ورطہ حیرت میں گم ہو گیا کہ اتنا باوقار ماضی رکھنے والی اس ارض وطن کو چمٹی جونکوں نے آج اسے کس حال کو پہنچا دیا ہے۔ پہلے ہمارے شاندار ماضی کی ایک جھلک دیکھ لیجئے۔ ماضی کی پرتیں کھولنے والے ہمارے محقق کا کہنا ہے کہ ”شاہ ایران ہر دوسرے ماہ پاکستان کا دورہ کرتے تھے اور اسکی ترقی کو حیرت سے دیکھتے تھے۔ فلسطین کی آزادی کیلئے اقوام متحدہ کے عالمی فورم پر سب سے پہلے آواز بھی ہم نے اٹھائی تھی۔ شام، مصر اور اردن کی سفارت کاری اور آزادی و بحالی کیلئے بھی پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا۔ سعودی عرب میں 1970ءتک پاکستان سے زکوٰة جاتی تھی اور سعودی شہری خانہ کعبہ میں پاکستانیوں کے رزق میں اضافہ کے لیئے دعائیں کیا کرتے تھے۔ متحدہ عرب امارات کی ترقی میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا۔ دنیا کی چوتھی بہترین ائیرلائن ایمرٹس کا کوڈ ”پی کے کراچی“ ہے۔ اس ایئرلائن کا آغاز کراچی سے ہوا جس کے انجینئر‘ عملہ‘ پائلٹس اور ایئر ہوسٹس تک پاکستان نے فراہم کیں اور پھر ایئرلائن کے اماراتی سٹاف کو تربیت بھی دی۔ اس ایئرلائن کو جہاز بھی پاکستان نے فراہم کیا چنانچہ یہ ایئرلائن آج بھی ”ایمرٹس کراچی“ کے نام سے ہی جانی جاتی ہے۔ مالٹا کے بچوں کے درسی سلیبس میں پاکستان کی قومی ایئرلائنز پی آئی اے پر پورا ایک چیپٹر شامل کیا گیا ہے۔ سنگاپور کی ایئرلائن اور پورٹ دونوں پاکستان نے بنائیں۔ انڈونیشیا اور ملائشیا کی اشرافیہ کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پاکستان آتے تھے۔ ملائشیا کا آئین تک پاکستانی وکلاءنے لکھا تھا۔ جنوبی کوریا کی گروتھ میں ڈاکٹر محبوب الحق کے پانچ سالہ منصوبے کا اہم کردار تھا۔ بھارت 1990ءکی دہائی تک پاکستان سے بجلی خریدتا رہا اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے شائننگ انڈیا کا پورا منصوبہ پاکستان سے لیا تھا۔ دنیا کی تین بڑی انجنیئرنگ کمپنیوں نے کنسورشئیم بنا کر 60ءکی دہائی میں منگلہ ڈیم کو پاور انرجی کے حصول کیلئے قابل تقلید ٹھہرایا اور ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات جہاز بھر کر اس ڈیم کا نظارہ اور مشاہدہ کرنے پاکستان آتے اور اس کا کام دیکھ کر حیرت میں گم ہو جاتے۔ مسلم دنیا کے 27 ممالک کے فوجی افسر پاکستان میں ٹرینڈ ہوئے اور بعدازاں اپنے اپنے ملکوں میں آرمی چیف بنے۔ یواے ای کے فرمانروا 1970ءکی دہائی تک جب پاکستان آتے تو صرف ایک کمشنر ان کے استقبال کیلئے ائر پورٹ جایا کرتا تھا۔ اور 1960ءمیں جب ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تو صدر جان ایف کینیڈی سمیت پوری امریکی کابینہ نے ایئرپورٹ پر کورنش بجالاتے ہوئے ان کا استقبال کیا اور صدر ایوب خان ایئرپورٹ سے وائٹ ہاﺅس تک کھلی گاڑی میں گئے جبکہ سڑکوں کی دونوں سائیڈوں پر امریکی عوام انکے استقبال کیلئے پھول لے کر کھڑے تھے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ دنیا نے پاکستان کا ایک دور وہ بھی دیکھا ہے جب پاکستان جرمنی اور جاپان جیسے ممالک کو قرضے دیتا تھا لیکن اب اس ملک میں ایک دور ایسا بھی آگیا ہے کہ ہم ایک ارب ڈالر کے قرض کیلئے دنیا کے دروازے پر بھکاری بن کر بیٹھے ہیں اور دنیا ہمیں نفرت سے دیکھ رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم ویزے کے بغیر پوری دنیا میں سفر کرتے تھے اور ایک وقت اب ہے جب ہمیں افغانستان کے ویزے کیلئے بھی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیا کبھی ہم نے سوچنے کی زحمت کی ہے۔ ہمیں ماننا پڑیگا کہ ہم نے بڑی محنت اور جدوجہد سے ملک کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اب سوال یہی ہے کہ کیا ہمارے پاس واپسی کی کوئی گنجائش ہے؟
اس ویڈیو میں ملک کی ترقی کے سفر کے دوبارہ آغاز کیلئے سسٹم میں تبدیلی کی بعض تجاویز پیش کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھ کر اگلے 20 سال کا منصوبہ طے کریں اور پھر جو بھی اس منصوبے سے انحراف کرے‘ اسے قرارواقعی سزا دی جائے۔ ہو سکتا ہے اس تحقیقی ویڈیو کے بعض مندرجات حقائق کے منافی ہوں مگر پچاس کی دہائی سے اب تک کی اس ارض وطن کی زندہ باشعور شخصیات نے اس ملک خداداد کو سجتے‘ سنورتے‘ پھلتے‘ پھولتے‘ اقوام عالم میں سرخروئی کے ساتھ سر اٹھا کر چلتے اور پھر تیز رفتاری کے ساتھ تباہی کی جانب لڑھکتے تو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے۔ اور یہ حقائق بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہیں کہ والی ریاستِ بہاولپور سعودی عرب کی پسماندگی دور کرنے کیلئے وہاں مالی امداد بھجوایا کرتے تھے۔ 
اس تجزیے میں ممکن ہے آپ کو ہماری کسی فوجی حکمرانی کی ستائش نظر آئے کیونکہ یہ پاکستان کے جس عرصے کا تجزیہ ہے‘ وہ زیادہ تر جنرل ایوب خان کے اقتدار کا عرصہ تھا۔ میں خود بھی فوجی حکمرانیوں کا سخت ناقد ہوں اور ماورائے آئین اقدامات کو آئینی جمہوری سسٹم پر شب خون مارنے سے تعبیر کرتا ہوں اور اس ناطے سے آئین و جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں کی حمایت بھی کرتا رہا ہوں مگر حضور! یہ سرسری سا جائزہ لینے میں بھی کیا قباحت ہے کہ ہمارا مروجہ پارلیمانی جمہوری نظام ہماری معاشرت سے مطابقت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے میں ان سطور میں متعدد بار اپنی ناقص رائے کا اظہار بھی کر چکا ہوں کہ آئین کے تحت قائم سلطانی جمہور کے ثمرات جمہور تک نہیں پہنچ رہے تو آئین میں ترمیم کرکے کسی نئے سسٹم کا تجربہ کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ علامہ اقبال نے تو ”ہر نقش کہن“ کو مٹانے کا خواب دیکھتے ہوئے سلطانی جمہور کی وکالت کی تھی مگر انکی زندگی کے بعد یہ خواب پورا ہونے کے باوجود کیا ”نقش کہن“ سے ہمیں نجات مل پائی؟ اگر سلطانی جمہور میں اب تک ”بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کیلئے“ کا جادو ہی سر چڑھ کر بول رہا ہے تو سلطانی جمہور میں ہمارے لئے ہر نقش کہن کو مٹانے کا فلسفہ چہ معنی دارد؟
میں نے سلطانی جمہور کے اس لچھن کی عکاسی اپنے ایک قطعہ میں کی ہوئی ہے کہ:
”ان“ کی اور اپنی حکومت میں بس اتنا فرق ہے
انکی فوجی تھی‘ یہاں جمہور کا پیوند ہے
انکے منگلہ اور ورسک بند تھے چھائے ہوئے
اپنا آٹا بند‘ چینی بند اور گھی بند ہے
ارے خدا کے بندو! آج تو ہم اس ارض وطن سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش کی معیشت و ترقی کا بھی اپنی معیشت کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے۔ تین دہائیاں قبل تک اندونیشیا‘ تھائی لینڈ‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش کی کرنسی ہماری کرنسی کے مقابلے میں ٹکے ٹوکری نظر آتی تھی اور یہ تصور عام تھا کہ ان ممالک کی کرنسی بوریاں بھر کر مارکیٹ میں لے جاﺅ اور وہاں سے اپنی ضرورت کی سیر دو سیر کوئی چیز خرید لاﺅ۔ آج یہ تصور ہماری کرنسی کے بارے میں قائم ہو چکا ہے اور افغانستان کی کرنسی بھی ہمیں آنکھیں دکھاتی ہمارے مقابلے میں جستیں بھرتی نظر آرہی ہے۔ اور پھر ناصر کاظمی کا یہ شعر ہماری پوری معاشرت پر صادق ہوتا نظر آرہا ہے کہ!
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
آج ہمارا قومی تشخص اجتماعی طور پر بھنگ پی کر سوئی ہوئی قوم کا ہی بنتا نظر آرہا ہے جس میں سلطانی جمہور نے جمہور (رعایا) کو راندہ درگاہ ہونے والے مقام کی جانب دھکیل دیا ہے اور حکمران اشرافیہ طبقات کی تشکیل پاکستان کا باعث بننے والی عیش و عشرت نہ صرف اسی طرح جاری و ساری ہے بلکہ ان طبقات کو منتخب جمہوری فورموں کے ذریعے اپنی عیش و عشرت کا تحفظ بھی حاصل ہے اور اس ارض وطن کو چچوڑ کر خلق خدا کیلئے بانجھ بنانے کی کھلی چھوٹ بھی انہیں حاصل ہو چکی ہے۔ یہ سارے ”مفاداتی بھائیوال“ خلق خدا کا حق مارنا ہی اپنا حق قرار دیئے بیٹھے ہیں اس لئے کسی جبری اور رضاکارانہ ٹیکس کو بھی خود پر لاگو ہونے دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ 
اگر آج اس ملک کے آئی ایم ایف سے مستعار لئے گئے وزیر خزانہ ببانگ دہل یہ اعلان کر رے ہیں کہ ہر سرکاری ادارے کی نجکاری کئے بغیر ملک کو نہیں چلایا جا سکتا تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ارض وطن کو مزید چچوڑنے اور اسکے زندہ درگور ہوئے عوام کو بے کسی کی حالت میں مارنے کیلئے مزید کتنے ہاتھ اپنی فسوں کاری کے مناظر دکھانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ تو بھائی صاحب! سلطانی جمہور میں طے ہونے والے اس ایجنڈا کو سلطانی جمہور سے وابستہ کس کس شخصیت کی آشیرباد ہے۔ اس کا اندازہ آپ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کے اسمبلی کے بجٹ سیشن میں شریک نہ ہونے کے فیصلے سے لگا لیجئے۔ بجٹ کے ذریعے عوام کے تن سے لنگوٹی تک اتارنے کے عمل سے کسی قومی سیاسی قیادت کی بے نیازی سارے مفاداتی بھائیوالوں کو مزید کھلی چھوٹ دینے کا مضبوط عندیہ اور ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کا ٹھوس پیغام ہے۔ اب تو راندہ درگاہ عوام ہی کو سوچنا ہے کہ انہوں نے نظر آنیوالے ہر نقش کہن کو مٹانے کا عزم باندھنا ہے اور اپنے لئے ثمرات لانے والے سسٹم کی راہ ہموار کرنی ہے یا خاموشی کے ساتھ خود کو قبر میں اتارنے کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ہمارے بھائی اور نویکلے پنجابی شاعر ظہور حسین ظہور تو ”پاکستان کوئی سَوکھا بنیا“ کا آئینہ دکھاتے دکھاتے تین دہائیاں قبل اگلے جہاں سدھار گئے اور اس ارض وطن کے "ڈھگے" عوام ابھی تک محو تماشائے لبِ بام ہیں۔ سو ہم بس دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اس ملک خداداد پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ ”ویسے کچھ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی“

ای پیپر دی نیشن