دنیا کے مہذب معاشروں میں تمام تر پالیسیوں کا محور ومرکز عوام ہوتے ہیں۔ ریاست کی اولین ترجیح عوام کے مفادات ہوتے ہیں۔ تمام تر سہولتیں بھی ان کے لیے ہوتی ہیں۔ تمام سرکاری ونجی اداروں کے ملازمین خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ ریاستیں ماں جیسی ہوتی ہیں۔ لیکن ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہمارے ہاں تمام تر پالیسیاں خواص کے مفادات کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ سرکاری ملازم ریاست کا داماد سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری ملازم اور حکمران عوام کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ عوام کیڑے مکوڑے تصور کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہزاروں مثالیں ایسی ہیں اور اس ایشو پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے کہ روزمرہ کے کن کن معاملات پر روزانہ عام آدمی کا کس قدراستحصال ہو رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ استحصالی طبقات اس کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور عام آدمی ہرقسم کے جبر کو اپنا مقدر تصور کیے بیٹھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر مشکلات اور مصائب کو اپنی قسمت سمجھ کر اس کا اظہار بھی نہیں کر پاتا بے شمار لوگوں کو جبر برداشت کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ان کا جواب ہوتا ہے کیا کریں یہاں رہنا نہیں، یہ سارا کچھ تو جھیلنا پڑے گا۔
دنیا میں حقوق وفرائض اعتدال کے ساتھ لاگو ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں تمام تر حقوق بااختیار لوگوں کے پاس ہیں اور تمام تر فرائض کی ذمہ داری عام آدمی کی سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں عوام کی فلاح کے نام پر کیے جانے والے ترقیاتی منصوبے بھی عذاب بن جاتے ہیں۔ اول تو حکومت، ترقیاتی ادارے پرائیویٹ کنسٹرشن کمپنیاں، پرائیویٹ ٹھیکیدار جو کہ بزنس کر رہے ہوتے ہیں تمام تر عوام پر احسان سمجھ کر کام کرتے ہیں۔ جس علاقے میں کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع ہو جائے وہاں کے عوام کو سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ وہاں کے تمام تر پبلک پارک سکولوں کی گراونڈز کنسٹرشن کمپنیوں کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔ وہ کمپنیاں اپنا تعمیراتی بزنس کر رہی ہوتی ہیں لیکن وہ پبلک پارک تباہ کر کے چلی جاتی ہیں۔ پھر ان پارکوں کی بحالی کے لیے علیحدہ سے ٹھیکے دیے جاتے ہیں۔ بندہ پوچھے کیا کسی پرائیویٹ کمپنی کو اپنا کاروبار کرنے کے لیے عوام کے مفاد کو قربان کیا جا سکتا ہے؟
ہمارے ہاں ٹھیکیدار کو نوازنے کے لیے تمام تر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور عوام کی پریشانی کا کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔ دنیا میں وقت مقررہ تک ترقیاتی منصوبے مکمل نہ کرنے والوں کو بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کرکے منصوبے کے تعمیراتی اخراجات بڑھائے جاتے ہیں اور پھر اس میں سب کا حصہ رکھا جاتا ہے۔ ہم نے مہذب معاشروں میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوتے دیکھا ہے۔ وہاں اگر کسی سڑک کی تعمیر ومرمت ہونا ہے تو وہاں رات کے وقت سڑک کا اتنا حصہ اکھاڑا جاتا اور صبح ورکنگ آوور سے پہلے اسے تعمیر کر دیا جاتا ہے۔ صبح لوگ اٹھتے ہیں تو نئی سڑک بنی ہوتی ہے۔ وہاں لوگوں کے راستے بند نہیں کیے جاتے۔ میٹریل رکھ کر لوگوں کے لیے مشکلات نہیں بڑھائی جاتیں بلکہ تیار میٹریل گاڑیوں میں لایا جاتا ہے اور کام مکمل کر کے صفائی بھی کر دی جاتی ہے۔
اب میں آپ کے سامنے صوبائی دارالحکومت کا ایک شاہکار منصوبہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ والٹن روڈ پر انڈر گراونڈ سیوریج کے پائپ بچھانے برساتی نالہ کی تعمیر اور والٹن روڈ کی کنسٹرشن کامنصوبہ کوئی 9ماہ پہلے شروع کیا گیا۔ بتایا گیا کہ یہ فاسٹ ٹریک منصوبہ ہے یہ دسمبر تک مکمل کر لیا جائے گا (یاد رہے کہ فاسٹ ٹریک منصوبوں کے تعمیراتی ریٹس زیادہ ہوتے ہیں)۔ پھر فروری کی تاریخ دی گئی اس کے بعد 23 مارچ اور 31جون کی تاریخیں دی گئیں۔ پورے والٹن روڈ پر خندقیں کھود دی گئیں۔ لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا گیا۔ والٹن روڈ کے لاکھوں مکین پچھلے 9ماہ سے قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ گردوغبار کا یہ عالم ہے، گھروں میں ڈسٹ کا راج ہے، سانس لینا مشکل ہو رہا ہے، لوگ دائمی مریض ہو گئے ہیں۔ اگر کوئی ایک بار موٹر سائیکل پر والٹن روڈ سے گزر جائے تو ڈسٹ سے اس کا اتنا برا حال ہوتا ہے کہ اس کے گھر والے بھی اسے پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ شاید کوئی بھوت آگیا ہے۔ جن کے پاس گاڑیاں ہیں وہ 9ماہ میں کھٹارا بن چکی ہیں۔ والٹن روڈ کے دکانداروں کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔ وہ کئی ماہ سے فارغ بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔ اوپر سے ڈسٹ کے ماحول میں دمہ کے مریض بن گئے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ والٹن کنٹونمنٹ بورڈ اس سال کا پراپرٹی ٹیکس معاف کر دیتا۔ تاجروں کو دوسرے ٹیکسز میں چھوٹ دی جاتی۔ لیکن والٹن روڈ کے مکین 9ماہ سے گردوغبار میں رہ کر صفائی ٹیکس بھی دے رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ آنلائن ٹیکسی والا یا رکشہ والا بھی ادھر کا رخ نہیں کرتا۔والٹن روڈ کانام سن کر توبہ توبہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ فوڈ ڈلیوری والے والٹن روڈ کا آرڈر نہیں پکڑتے۔ والٹن روڈ کے لاکھوں شہریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ شروع شروع میں منصوبے پر کافی برق رفتاری سے کام شروع ہوا لیکن اب چیونٹی کی رفتار پر آگئے ہیں اور شاید انتظار کیا جا رہا ہے کہ بارشوں کا موسم آجائے لوگ ڈوب مریں اور بارشوں کا بہانہ بنا کر تعمیراتی لاگت کو بڑھایا جائے اور پھر کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ والٹن روڈ کے مکینوں کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا ہے کہ کوئی متبادل راستہ بھی نہیں چھوڑا۔ خیابانِ اقبال چیل چوک پر فلائی اوور بھی ساتھ ہی شروع کر دیا گیا اور وہ راستہ بھی بند کر دیا گیا۔ دوسری جانب سی بی ڈی مین بلیوارڈ ساری مکمل ہو چکی ہے اوور ہیڈ برج بھی بن چکا ہے۔ اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا رہ گیا ہے جسے جان بوجھ کر تعمیر نہیں کیا جا رہا کہ کہیں والٹن روڈ کے مکین اسے متبادل کے طور پر استعمال نہ کر سکیں۔ چاروں اطراف سے خندقیں کھود کر والٹن روڈ کے مکینوں کو محصور کر دیا گیا ہے۔ خدارا، اربابِ اختیار اس کا نوٹس لیں۔ عوام کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے اور اس منصوبے کو جلد از جلد تعمیر کروا کر لوگوں کو قید سے رہائی دلوائی جائے۔