’’کملا نگر کی کہانی‘‘

ایک عرصہ ہواجب کوئی پوچھتا ہے کہ آپکا گائوں کہا ںہے تو بے اختیار کہنے کو جی چاہتا ہے ــ’’زیر زمین‘‘ کہ تمام آبائو اجداد جن سے کبھی ہمارا بھی گائوں بستا تھا جو ہماری آمد کے منتظر رہا کرتے تھے جن کی آنکھیں ہماری راہ تکا کرتی تھیں عرصہ ہوا زیر زمین سکون کی نیند سو گئے اب تو ان کی یادوں کوبھی دل میں ہی بسا کر رکھتے ہیں کسی کے سامنے ان کا زیادہ تذکرہ بھی نہیں کرتے کہ کہیں کوئی ہم سے پوچھ ہی نہ لے  
                             وہ تو آباء تھے تمہارے مگر تم کیا ہو 
خیر چھوڑئیے! آج کی نشست میں ایک گائوں کا واقعہ سنانا مقصود ہے جہاں کے باسی عجیب و غریب مخلوق تھے یہاں مسلمان ہونے کے ناطے بت پرستی تو نہ تھی لیکن توہم پرستی اپنے عروج پر تھی کوئی خاندان پرستی کا شکار تھا تو کوئی شخصیت پرستی کا ہر کسی کو اپنی پسندیدہ شخصیات اور پسندیدہ خاندان پر یقین کامل تھا ۔۔ یقین نہیں تھا تو فقط اپنی ذات پر نہیں تھا اپنی صلاحیتوں پر نہیں تھا !
 اس گائوں کے باسی ہر وقت بوکھلائے سے رہتے تھے کملائے سے رہتے تھے محسو س ہوتا تھا کہ شعور اس گائوں کو چھو کر بھی نہیں گزرا کوئی یہاں کے باسیوں کو اللہ میاں کی گائے کہتا تھا اور کوئی کہتا تھا کہ اس گائوں کی اکثریت ’’کملی ‘‘ ہے یہی وجہ تھی کہ یہ گائوں ’’ کملا نگر ‘‘ کے نام سے معروف ہو گیا
 یہاں سالہا سال سے چودھراہٹ کا سلسلہ چلتا آ رہا تھا جو بعد ازاں نسل در نسل منتقل کیا جانے لگا شروع شروع میں جب اس سلسلے کا آغاز ہوا تو بڑے چودھری صاحب بہت متحرک اور نیک نیت انسان تھے جو درد دل کے ساتھ ساتھ خوش قسمتی سے درد گائوں بھی رکھتے تھے انہوں نے گائوں والوں کے تمام مسائل دل کھول کر سنے اوران مسائل کے خاتمہ کے لئے ہر ممکن حد تک کوشاں بھی رہے انہی کے زمانے میں گائوں سے شہر کی طرف جانے والے کچی اور ناہموار سڑک کو پکی سڑک بنایا گیا اس عمل سے گائوں والوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کہ انکے لئے شہر کے سکول ، کالج اور ہسپتال جانا قدرے آسان ہو گیا تھا سونے پر سہاگہ یہ کہ چودھری صاحب نے شہر جا کر پڑھنے والے بچوں کو نئی سائیکلیں بھی مہیاء کیں جس کے بعد پورا گائوں ’’ چودھری فیر آوے ای آوے ‘‘ کے  نعروں سے گونج اٹھا وقت گزرتا رہا راوی چین لکھتا رہالیکن کہتے ہیں ناں کہ اقتداربہت بری چیز ہے حکمرانی اور احساس ملکیت سے اچھے اچھوں کے عہد و پیمان متزلزل ہونے لگتے ہیں سو ایسا ہی کچھ اس گائوں میں بھی ہوا چودھری صاحبان کے درد دل کی جگہ گائوں والوں کے دل کا درد بڑھنے لگا اوروہ دھیرے دھیرے مشکلات میں گھرنے لگے گائوں والوں کے مسائل کی جگہ ذاتی مفادات آڑے آنے لگے اندر ہی اند ر چودھریوں کی زمینوں جائیدادوں میں اضافہ ہونے لگا کہ اختیارات مل جانے کے بعد اختیارات سے تجاوز کر جانا تو ہمارے معاشرے کا ایک خاص المیہ ہے !!!
آہستہ آہستہ گائوں والوں کو دل ہی دل میں یہ احساس ستانے لگا کہ معاملات اب پہلے جیسے نہیں رہے آس پاس کے گائوں والوں نے کملا نگر کی بہتری کے لئے کئی بار مختلف طریقوں سے مدد کی لیکن اس گائوں کو کوئی افاقہ نہ ہوا سو تنگ آ کر دیگرگائوں والوں نے یہاں مزید قرض دینا بند کر دیا گائوں کی حالت نازک تھی اور کوئی پرسان حال نہ تھا جہاں حرکت تیز تر تھی اور ترقی کا سفر بہت آہستہ ۔۔۔ کوئی کہتا تھا یہ گائوں آسیب زدہ ہے کوئی کہتا تھا یہاں کوئی سبز قدم آ بسا ہے گویا جتنے منہ اتنہ باتیں تھیں !!
 اسی دوران ایک نیا چہرہ ابھر کو گائوں والوں کے سامنے آیا جس نے تھکے ہارے گائوں کے باسیوں کو ایک نئی راہ دکھائی ایک انوکھی طرز کی مہم چلائی گئی کہ اب گائوں کی بہتری کے لئے کسی اور کو آگے آنا چاہئے چودھریوں کا دور اب گزرچکا اور انکا انداز بھی اب سود مند نہیں رہا دعوی کیا جانے لگا کہ چودھریوں نے جو لوٹ مار مچا رکھی ہے اس سے نجات صرف ہم ہی دلوا سکتے ہیں ہمارے علاوہ کملا نگر کے مفاد کا خواہاں کوئی نہیں سو ہمارے سر پر پگڑی رکھ کر ہمیں سربراہ مانا جائے ہم قدیم روایات کو مسخ کر کے اس گائوں کے نظام کو کسی شہر کی طرح ماڈرن طریقے سے چلائیں گے تاکہ کملا نگر بھی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے ۔۔ اس نئے آنے والے میں اور کچھ تھا یا نہیں باتوں میں بہت دم تھا ، لہجہ بھی دبنگ تھا اور کچھ کر گزرنے کا جوش تھا گائوں والے جو کئی سالوں سے ایک ہی مرکز کے گرد گھوم رہے تھے ان میں سے بیشتر اس نئی امید کو دکھ کر خود میں کھلبلی محسوس کرنے لگے مزید بہتری کے انتظارمیں بیٹھے ہوئوں پراس نئے آنے والے کا انداز سخن اثر کر گیا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسکے گرویدہ ہو گئے یہ نیا آنے والا ایک نئے انداز میں مہم چلا رہا تھا یہاں یہ کچھ وعدے کرتا، بلند وبانگ دعوے کرتا اور وہاں کچھ لوگ ڈھول پیٹنے لگتے ڈھول کی تھاپ پر اس شخصیت کی مدح میں لکھے گئے قصیدے ترنم میں گنگنائے جانے لگتے جو کہ کملا نگر کے چند مقامی کملے شاعروں کی جانب سے ہی لکھے گئے تھے ترنم میں سنائے جانے والے قصیدوں اور ڈھول کی تھاپ پر مرد حضرات بھنگڑے ڈالتے رقص کرتے دکھائی دیتے اور خواتین اپنی اپنی چنڑیوں میں ہنسی چھپائے شرماتے، لجاتے ہوئے محظوظ ہونے لگتیں اس ماڈرن سے تبدیلی کی حامل مہم میں ایک خاص قسم کا مزہ تھا لیکن گائوں والے اس بات سے آگاہ نہ تھے کہ یہ مزہ ایک ’’تکلیف دہ ‘‘ مزے کی صورت اختیار کرنے والا تھا گائوں کا سماں بدل سا گیا گائوں کے اکثر کملے ، کملیاں اس شخصیت کے دعووں وعدوں اور ڈھول کی تھاپ میں کھو سے گئے ۔۔ اور اس تبدیلی سے چودھری نالاں رہنے لگے  گائوں کی فضا آلودہ آلودہ سی ہونے لگی چودھریوں میں اور نئے آنے والوں میں غائبانہ طور پر جنگ سی چھڑ گئی چودھری سسٹم کے حامی ایک طرف ہو گئے اور ڈھول کی تھاپ پر رقصاںحامی ایک طرف !  
ایک رات کملا نگر کے یہ دو خاص گروہ اسقدر مشتعل ہو گئے کہ لکڑیوں کو جلا کر مشعلیں بنا کر آمنے سامنے آ کھڑے ہو ئے ان کملوں کو جوش میں یہ احساس تک نہ رہا کہ یہ کملے اپنی ہی جنم بھومی کے در پے ہو گئے ہیں بات محض ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے کی طے ہوئی تھی لیکن اشتعال کی کیفیت میں ایک دوسرے کی زمینوں کے ساتھ ساتھ کھیتوں کو بھی جلا دیا گیا اور نوبت گھروں کو جلانے تک آن پہنچی یہ تو بھلا ہو کسی اللہ کے بندے نے گائوں کے قریبی تھانے میں اطلاع کروا دی اور پولیس نے آ کر جس حد تک ہو سکا مزید نقصان ہونے سے بچا لیا ۔۔۔
وہ رات گائوں والوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھی وہ بچارے تو اس قدر بے خود ہو چکے تھے کہ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھی کہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں پولیس کی تفتیش کے دوران انہوں نے روتے ، سسکیاں لیتے بتایا کہ ہم نے تو اپنے اپنے’’ راہ نمائوں‘‘ کے دئیے گئے راستے پر قدم رکھنے کی کو شش کی تھی ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ حالات اس حد تک بگڑ جائیں گے اس بیان کے بعد پولیس نے گائوں والوں کو ہوش کے ناخن دلا کر بری کر دیا اس واقعہ کے بعد اکثریت کی رضامندی کے تحت چودھریوں کے بجائے دوسرے گروپ کو روایت کے مطابق پنچایت میں پگڑی پہنا کر سربراہ مان لیا گیا لیکن چند ماہ میں ہی انکے سارے دعوے اور وعدے دم توڑ گئے اور نظام پہلے سے بھی ذیادہ متزلزل ہونے لگا کسی نے بھی حالات کی بہتری کے لئے مناسب اقدامات نہ اٹھائے کوئی کھلاڑی نکلا کوئی مداری نکلا کوئی اناڑی نکلا اور کوئی محض اپنی ہی ذات کا اپنے ہی مفاد کا پجاری نکلا !!! اس صورتحال نے کملا نگر کے باسیوں کو مزید کملا  کے رکھ دیا کچھ وقت گزرا تو چودھریوں نے نئے آنے والوں کی بوگس کارکردگی کے پیش نظر پھر سے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے اور گائوں والوں پر مسلط اس نئے گروہ کو گاہے بگاہے للکارنا شروع کر دیا جسکے جواب میں ایک روزدوسری جانب سے بھی بندوقوں کی نالیاں سیدھی کر لی گئیں سب گائوں والے بھونچکے کھڑے تھے کہ آخر اب کیا ہو گا اس سے پہلے کہ گائوں میں ایک مرتبہ پھر تباہی مچتی گائوں کی مشہور شخصیت اللہ بخشے چاچی نوراں المعروف ’’ وڈی کملی‘‘ جو کہ اکثر گائوں والوں کے مسائل سلجھایا کرتی تھے فوری آگے بڑھی اوردونوں گروپوں کے درمیان میں دو زانو ہو کر بیٹھ گئی کہتے ہیں کہ چاچی نوراں ہاتھ جوڑ کر دھاریں مار مار کر رونے لگی اسکے منہ پر تکلیف کی انتہا کے وقت جو الفاظ تھے وہ کچھ یوں تھے(پنجابی زبان میں)  
’’ چودھریو ویکھ لئی تہاڈی چودھراہٹ  تے دوجیا تیری طاقت دا مظاہرہ وہ ویکھ لیا اس سب کجھ دے دوران تہاڈا دوہواں دا تے کجھ گیا نئیں پر معاف کریو ساڈا ساریاں دا کجھ رہیا نہیں ، او ظالمو ساڈے کندھے تے رکھ کے کیہڑی بندوق چلا دتی جے اسی جنہاں نے دعاواں منگ منگ رب سوہنے کولوں بارش منگی سی کنک تے منجی اگائی سی اسی بد نصیب اپنے ہتھیں اپنا اناج ای ساڑھ دتا ہن اسی رہواں گے کتھے ؟ او ااسی کھاواں گے کی؟؟ بیجاں گے کی؟ او ساڈے تے کچے گھر وی مٹی دی ڈھیری بنن نوں پھڑ دے نیں اساں اپنے آپ نوں کدی معاف نئیں کرنا کدی معاف نئیں جے کرنا ‘‘ چاچی نوراں واسطے دے دے کر روتی رہی۔۔۔۔
یہ سب کچھ دیکھنا تھا کہ تمام حالات وو اقعات سے تنگ سرپنج آگے بڑھا اور بے اختیار کہنے لگا کہ آج جو فیصلہ چاچی نوراں کرے گی وہی اس گائوں کے لئے آخری فیصلہ ہوگا جس کو نوراں چنے گی وہی ا گلا رہنما ہو گا کہتے ہیں کہ کچھ پل کے لئے چاچی نوراں خاموش ہو گئی اور پھر اس نے ایسی بات کہی جس نے کملا نگر کے باسیوں کودن میں تارے دکھلا دیئے چاچی نوراں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا کہ میری مانو تو اس دفعہ سربراہ کسی خواجہ سراکو چن لو اس کے بہت سے فوائد ہیں گائوں والوںنے حیرت زدگی کے عالم میں استفسار کیاتو چاچی نوراں نے خواجہ سرا کو رہنما بنانے کے فوائد کچھ اس طرح گنوائے 
فائدہ نمبر ۱ - خواجہ سراکی چونکہ نسل آگے نہیں بڑھ سکتی اس گائوں کے سب سے بڑے مسلے یعنی نسل در نسل غلامی سے چھٹکارا مل جائے گا -
 فائدہ نمبر دو -چونکہ خواجہ سرا مانگنے کے فن سے بخوبی آگاہ ہیںاس لئے وہ گائوں جنہوں نے کملا نگر کو قرض دینا بند کر رکھا ہے وہاں سے بھی خواجہ سرااپنے مانگنے کے فن کے بل بوتے پر کچھ نہ کچھ لے آئیں گے فائدہ نمبر تین -چونکہ خواجہ سرائوں کی بد دعا سے ایک زمانہ ڈرتا ہے اس لئے آس پاس کے گائوں ہمارے خواجہ سراراہنماکی بد دعا کے ڈر سے گذشتہ قرضے معاف کرنے پر تیار ہو جائیں گے
 فائدہ نمبر چار -جب بھی گائوں میں کوئی خوشی کا موقع ہو گا تو ہمارا خواجہ سرا راہنمااپنائیت کے ساتھ عام افراد کی طرح ہماری خوشیوں میں شامل ہو پائے گا مزید یہ کہ انوکھی چنائو مہم میں ڈھول کی تھاپ اور رقص کی صورت جس مزے کی عادت ہمیں ہو چکی ہے وہ عادت بھی پوری ہوتی رہے گی اور خوب رونق میلا لگا رہے گا !
کہتے ہیں کہ شروع شروع میں گائوں کے لوگ اس تجویز پر عمل کرنے سے کترائے لیکن آخر کار کملا نگر کے کملے ہونے کے سبب جلد یا بدیراس تجویز پر عمل کیا گیا تھا اور یہ تمام فوائد بخوبی حاصل بھی کر لئے گئے۔۔۔۔
)نوٹ :یہ ایک فرضی کہانی ہے اور اس میں موجود کسی بھی واقعہ،سانحہ یا کردار کاحقیقت سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں( 

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی ذہانت کا جہاں حیرت

 پہلے چاند پر جانے کی بات ہوتی تو لوگ حیران رہ جاتے لیکن جب انہوں نے عملی طور پر دیکھا تو انہیں یقین آیا یہ سب انسانی دماغ کا ...