یرغمال قوم: سانحہ سوات کے ذمہ دار کون؟ 

 20 جون 2024جمعرات کی شام، پاکستان کی خونی تاریخ کا ایک اور المناک باب ہے کیونکہ سوات تشدد سے لرز اٹھا تھا۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی منفرد واقعہ نہیں بلکہ اس بھیانک سلسلے کا ایک اور نمونہ ہے جس نے پاکستانی قوم کو کئی دہائیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ سوات کا یہ خونریز واقعہ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں ہماری اجتماعی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ ایسے واقعات کے بھیانک نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں ان واقعات کے اصل ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ایسی ہولناکیوں کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے قابل عمل حل تلاش کیا جا سکے۔ 

پاکستان میں توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن کے نام پر متعدد المناک واقعات رونما ہوئے جہاں بہت سے مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی پاکستانی عوام کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ عوام کو اس خونی نہج تک لانے میں حکومتی فیصلوں نے بہت منفی کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء  الحق کے متعارف کردہ توہین رسالت کے قوانین کے تحت 1984 میں پہلا قابل ذکر توہین رسالت کا مقدمہ ایک عیسائی، سلامت مسیح اور اس کے چچا رحمت مسیح کے خلاف درج کیا گیا۔ ان پر پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات لکھنے کا الزام تھا۔ ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی2009￿ میں پیغمبر اسلام کی توہین کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔ اگرچہ ایک طویل قانونی جنگ کے بعد، اسے 2018ء میں سپریم کورٹ نے بری کر دیا لیکن حکومت کی طرف سے کیے گئے ان فیصلوں کے نتیجے میں دو سخت اور خطرناک قسم کے ردّعمل سامنے آئے۔ ایک تو یہ کہ توہین مذہب کے ملزموں کے خلاف کی جانے والی قانونی کاروائی اور عدالت کی طرف سے دی جانے والی سخت سزاوں کی وجہ سے عوام کی یہ ذہن سازی ہوئی کہ ملزم کو ایسی سزا لازمی ملنی ہی چاہیے۔ دوسرا اس سے بھی خطرناک ردّعمل اس وقت سامنے آیا جب حکومت بین الاقوامی دباویا کیس کی طوالت کی وجہ سے سزا دینے میں تاخیر کا شکار ہوئی تو عوام نے قانون اپنے ہاتھ میں لینا ہی عین اسلام سمجھ لیا۔ ان کی اس سطح تک ذہن سازی کرنے میں بنیاد پرست مذہبی علماء ا کردار حکومتی لاپرواہی سے بھی زیادہ بھیانک ثابت ہوا۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جنوری 2011 میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے محافظ نے توہین رسالت کے قوانین کی مخالفت اور آسیہ بی بی کی حمایت کرنے پر قتل کر دیا، اور عوام کا ہیرو قرار پایا۔ مارچ 2011 میں اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کو توہین مذہب کے قوانین کی مخالفت اور آسیہ بی بی کی حمایت کرنے پر قتل کر دیا گیا۔ 2012 میں ایک عیسائی جوڑے، شمع اور شہزاد کو پنجاب کے کوٹ رادھا کشن میں ایک ہجوم نے قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں جان سے مار ڈالا۔2018  میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو آن لائن گستاخانہ مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں ساتھی طلبہ کے ہجوم نے مار پیٹ کر جان سے مار ڈالا۔ میں بہائالدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کو سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز کلمات کو 'لائک' کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی۔ 2020میں پاکستانی نڑاد امریکی شہری طاہر نسیم کو توہین مذہب کے مقدمے کی سماعت کے دوران پشاور میں کمرہ عدالت میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ 2021ء میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا کو سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے مار پیٹ کر مار ڈالا۔ 2022 میں ضلع خانیوال کے ایک دماغی طور پر بیمار شخص مشتاق احمد کو مبینہ طور پر قرآن کے اوراق جلانے کے جرم میں ہجوم نے اذیت ناک موت دی۔ 
اس طرح کے واقعات پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کی وجہ سے پیدا ہونے والے شدید اور اکثر پْرتشدد ردّعمل کی عکاسی کرتے ہیں، جو اس طرح کے سانحات کو روکنے کے لیے قانونی اور سماجی اصلاحات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں قتل کے واقعات نے ملک کے سماجی، سیاسی اور معاشی تانے بانے پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مذہبی جوش، قانونی ناپختگی اور سماجی و سیاسی حرکیات کے امتزاج سے چلنے والا یہ رجحان دور رس اور کثیر جہتی نتائج کا حامل ہے۔ یہ نتائج نہ صرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی شبیہ کو داغدار کرتے ہیں بلکہ ملک کے اندر قانون کی حکمرانی، سماجی ہم آہنگی اور انسانی حقوق کو بھی بْری طرح مجروح کرتے ہیں۔ توہین مذہب کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کا سب سے فوری اور گہرا اثر قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہے۔ جب ہجوم انصاف کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں، تو اس سے قانونی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور ایک خطرناک مثال قائم ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف لاقانونیت کے کلچر کو فروغ ملتا ہے بلکہ قانونی ذرائع سے انصاف حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ ملزمان کو تحفظ فراہم کرنے اور منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنانے میں ریاست کی ناکامی انصاف اور حکمرانی کے بنیادی اصولوں میں خلل کا عندیہ دیتی ہے۔ توہین مذہب کے نام پر ہونے والے قتل معاشرتی تقسیم کا سبب بنتی ہیں اور فرقہ واریت کو ہوا دیتی ہیں۔ ایسے واقعات اکثر برادریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتے ہیں، مذہبی اور نسلی تقسیم کو گہرا کرتے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کے اندر، توہین رسالت کے قوانین کی تشریحات پر مختلف فرقے آپس میں تصادم بھی کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں مسلمان خود تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سماجی پولرائزیشن اتحاد کو کمزور کرتی ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل ڈالتی ہے، جس سے ایک مربوط معاشرے کی تعمیر مشکل ہو جاتی ہے۔ توہین مذہب کے نام پر کیے جانے والے تشدد سے پیدا ہونے والے خوف اور عدم استحکام کے ماحول کے سنگین معاشی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کار، دونوں ہی اس طرح کے تشدد سے وابستہ غیر متوقع خطرات سے پریشان ہیں۔ اس سے اقتصادی ترقی کی راہ مسدود ہوتی ہے، ملازمت کے مواقع کم ہوتے ہیں، اور ترقیاتی اقدامات رْک جاتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے اکثر تعلیمی اور رفاہی کاموں میں خلل پڑتا ہے، غربت اور پسماندگی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے واقعات کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ یہ واقعات عالمی سطح پر مذمت کا باعث بنتے ہیں اور ملک کو اقلیتوں کے لیے عدم برداشت اور غیر محفوظ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مزید برآں، ایسے واقعات سیاحت اور ثقافتی تبادلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ایسے واقعات انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ متاثرین کو اکثر وحشیانہ، ماورائے عدالت سزائیں دے کر منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی یہ صریح بے توقیری ایک انصاف پسند معاشرے کی بنیاد کو کمزور کرتی ہے۔ مزید برآں، متاثرین کے خاندانوں اور برادریوں کو پہنچنے والا نفسیاتی صدمہ دیرپا اثر چھوڑتا ہے۔ اسلام، انصاف، ہمدردی، اور معصوم جانوں کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ ایسے واقعات اسلامی تعلیمات کے بالکل متصادم ہیں، اور مذہب کی شبیہ کو مسخ کرتے ہیں۔ جب مذہبی جوش پرستی بنیادی اسلامی اصولوں پر غالب آجاتی ہے، تو اس سے نہ صرف عقیدے کی غلط تشریح ہوتی ہے بلکہ انتہا پسندانہ نظریات کو بھی ہوا ملتی ہے۔ 
توہین مذہب کے نام پر سوات میں پیش آنے والا المناک واقعہ، ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنے والے بنیادی عوامل اور حقیقی ذمہ داران کی تنقیدی جانچ کا مطالبہ کرتا ہے۔ مستقبل میں ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے ان حقیقی مجرموں کی نشاندہی اور ان کا احتساب بہت ضروری ہے۔ میری رائے میں اس واقعے کے سب سے بڑے اور بنیادی مجرم وہ مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے پاکستانی قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے، جو عدم برداشت کی تبلیغ کرتے ہیں اور تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کے بیانات میں اکثر نفرت انگیز تقریر اور مذہبی متون کی غلط تشریحات شامل ہوتی ہیں۔ یہ رہنما اپنے پیروکاروں کو متحرک کرنے کے لیے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہیں، ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جہاں تشدد کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ تشدد پر اکسانے پر ایسے ملاو?ں کو فوری طور پر گرفتار کیا جانا چاہیے اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ اسے اور اس کے ادارے کو تاحیات بند کر دینا چاہیے۔ ایسے واقعے کے دوسرے بڑے مجرم وہ سیاست دان ہیں جو مذہب کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ توہین مذہب کے قوانین کی حمایت یا ماورائے عدالت عوامی اقدامات پر ان کی خاموشی، بالواسطہ طور پر ہجوم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایسے سیاسی لوگوں کو فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹا کر تاحیات نااہل قرار دے دینا چاہیے اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔ ایسے واقعات کے تیسرے بڑے مجرم غیر ذمہ دار میڈیا پرسنز ہیں جو بغیر تصدیق کے توہین مذہب کے الزامات رپورٹ کرتے ہیں، جس سے ہجوم کو ہوا ملتی ہے۔ ایسے افراد اور چینلز کے نشریاتی لائسنس منسوخ کرتے ہوئے ان پر بھاری بھر جرمانے اور پابندیاں عائد کی جانی چاہیے۔ ایسے واقعات کے چوتھے مجرم پولیس اور مقامی حکام ہیں جو اکثر تعصب یا ردّعمل کے خوف کی وجہ سے ملزمان کو ہجومی تشدد سے بچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات میں ان کی بے عملی یا غیر فعال شمولیت قانون نافذ کرنے والے اداروں میں نظامی کمزوریوں کو نمایاں کرتی ہے۔ ایسے افراد کو فوری طور پر معطل کر کے تحقیقات کی جانی چاہیے اور الزام ثابت ہونے کی صورت میں ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جانی چاہیے۔ ایسے واقعات کے پانچویں مجرم ایسے اسکول اور مدارس ہیں جو عدم برداشت کے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور نوجوان ذہنوں کی بنیاد پرستی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ تنقیدی سوچ اور رواداری کو فروغ دیئے بغیر مذہب کی انتہا پسندانہ تشریحات پر زور دیتے ہیں۔ ایسے انتہا پسندانہ نظریات پھیلانے والے اساتذہ کے لیے حکومت کی طرف سے احتسابی اقدامات کیے جانے چاہیے اور نفرت انگیز تقاریر کو فروغ دینے والے اداروں پر بھاری جرمانے عائد کر کے ان کو بند کر دینا چاہیے۔ 
یاد رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق ہلاکتیں ایک المناک اور مستقل مسئلہ بن چکی ہیں، جو مذہبی انتہا پسندی، ناکافی قانونی فریم ورک، اور سماجی و سیاسی حرکیات کے امتزاج کی وجہ سے ہیں۔ ایسے واقعات کو مؤثر طریقے سے روکنے کے لیے، ایک جامع، کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ اس نقطہ نظر میں قانونی اصلاحات، تعلیمی اقدامات، کمیونٹی کی شمولیت، ریاستی اداروں کی مضبوطی، اور بین الاقوامی تعاون شامل ہونا چاہیے۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کو اکثر ذاتی مفادات طے کرنے، اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ جھوٹے الزامات کے خلاف سخت حفاظتی اقدامات شامل کرنے کے لیے ان قوانین پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ اس میں کوئی بھی باضابطہ الزامات عائد کیے جانے سے پہلے لازمی ابتدائی تحقیقات اور جھوٹے الزام لگانے والوں کے لیے سخت سزائیں شامل ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ توہین مذہب کے مقدمات کو خصوصی طور پر اعلیٰ عدالتیں ہینڈل کریں۔ توہین رسالت کے مقدمات کو فوری اور منصفانہ طریقے سے نمٹانے کے لیے عدلیہ کو بااختیار بنایا جائے اور مناسب وسائل فراہم کیے جائیں۔ تربیت یافتہ ججوں کے ساتھ خصوصی ٹربیونلز قائم کیے جائیں تاکہ مناسب کارروائی کو یقینی بناتے ہوئے ان مقدمات کو تیز کیا جاسکے۔ ملزمان کو قانونی مدد فراہم کی جانی چاہیے، اور ان کے منصفانہ ٹرائل کے حق کو سختی سے برقرار رکھا جانا چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس توہین مذہب کے الزامات کو حساس اور مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اکثر تربیت کی کمی ہوتی ہے۔ انسانی حقوق، مذہبی حساسیت، اور قانونی پروٹوکول پر مرکوز جامع تربیتی پروگرام ضروری ہیں۔ افسران کو ہجوم کم کرنے اور ملزم کو بحفاظت بچانے کی پوری تربیت اور وسائل دینے چاہیے۔ پولیس اور مقامی حکام کو توہین مذہب کا الزام لگانے والے افراد کی حفاظت میں ناکامی کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ خود مختار نگران ادارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کی نگرانی کر سکتے ہیں اور ملوث ہونے یا غفلت کے واقعات کی تحقیقات کر سکتے ہیں۔ احتساب کو یقینی بنانے سے ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا۔ رواداری، تکثیریت اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی نصاب میں اصلاح کی جانی چاہیے۔ نصابی کتب میں انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی، اور متنوع مذہبی برادریوں کے پْرامن بقائے باہمی پر زور دینا چاہیے۔ سلف کے نظریات کی تشریحات میں لکھی گئی ایسی تمام کتب جو کسی بھی طرح شدت پسندی کو بڑھاوا دیتی ہیں، کو بین کیا جانا چاہیے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ کسی ایک خاص مسلک کے نظریات کو پروان چڑھانے والی تمام کتب پر بھی سخت پابندی عائد ہونی چاہیے۔ ہمارا یقین کامل ہونا چاہیے کہ اسلام کی انصاف پر مبنی حقیقی تعلیمات، انتہا پسندانہ بیانیہ کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ ملک گیر مہمات جن کا مقصد ہجوم کے انصاف کے نتائج اور مناسب عمل کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے عوامی تاثرات کو تبدیل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ان مہمات میں میڈیا، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو شامل کرنا ان کی رسائی اور اثر کو بڑھا سکتا ہے۔ مذہبی رہنما اور علماء￿ پاکستان میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ تشدد کی مذمت اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو فروغ دینے کی کوششوں میں ان کو شامل کرنا بہت ضروری ہے۔ توہین مذہب سے متعلق تشدد کی مذمت کرنے والی معزز مذہبی شخصیات کے باقاعدہ مکالمے اور عوامی بیانات سماجی رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دے سکتا ہے۔ بین المذاہب بات چیت اور تعاون کے لیے پلیٹ فارمز کا قیام ایک زیادہ جامع اور روادار معاشرے کی تعمیر میں مدد کر سکتا ہے۔ ریاستی اداروں کو، خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے شعبوں میں، توہین مذہب سے متعلقہ مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے مضبوط ہونا چاہیے۔ حکومت کو توہین مذہب سے متعلق تشدد سے نمٹنے کے لیے مضبوط سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ حکومت کو انتہا پسندانہ نظریات اور فنڈنگ ?? کی نگرانی اور روک تھام کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کو فروغ دینے کے لیے، قانونی اور سماجی اقدامات کے ذریعے اقلیتی برادریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ ترقیاتی پروگراموں کو پسماندہ کمیونٹیز کی ترقی اور انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے تیار کیا جانا چاہیے۔
توہین مذہب کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کے پاکستان کے لیے دور رس اور تباہ کن نتائج ہیں۔ بنیاد پرست مذہبی رہنما، موقع پرست سیاست دان، غیر ذمہ دار میڈیا، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے تعلیمی ادارے سب ہی قصور وار ہیں۔ اسلام اپنی اصل کے اعتبار سے امن کا مذہب ہے۔ قرآن و حدیث معصوم جانوں کے تحفظ، انصاف اور ہم آہنگی کی وکالت کرتے ہیں۔ انتہا پسندانہ نظریات ان اصولوں کی سراسر تحریف ہیں۔ مذہبی اسکالرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے ہمدرد اور رواداری کے پہلوؤں کو اجاگر کریں، ایسے ماحول کو فروغ دیں جہاں انتہا پسندی کو کوئی راہ نہ ملے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور عالمی برادری کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے، رواداری کو فروغ دینے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے ذریعے، پاکستان زیادہ پْرامن، منصفانہ اور خوشحال مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اب عمل کرنے کا وقت ہے، اس سے پہلے کہ مزید جانیں بے کار ضائع ہو جائیں۔ ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے اور انہیں سزا دے کر پاکستان ایک ایسے معاشرے کی طرف بڑھ سکتا ہے جہاں انصاف کا بول بالا ہو اور توہین رسالت کے نام پر تشدد ماضی بن جائے۔ اصلاحات کا راستہ مشکل ہے، لیکن تمام شہریوں کے تحفظ اور وقار کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔

ای پیپر دی نیشن