وزیراعظم شہباز شریف دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کئی ممالک کے دورے کر چکے ہیں ان کا آخری چین کا دورہ تھا۔ حکومتی ذرائع کی طرف سے متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور چین کے دورے کو بھی کامیاب قرار دیا گیا جبکہ ناقدین تمام دوروں کے حوالے سے دوسری رائے رکھتے ہیں۔جین کے اخبارات کا جائزہ لیا جائے تو وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقاتوں میں چینی صدر اور وزیراعظم نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے دو باتوں پر زور دیا ایک تو پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بات کی گئی دوسری سیاسی استحکام کی۔
پاکستان کے اندر تحریک انصاف کی سیاست کو حکومت اور اداروں کی طرف سے شجر ممنوعہ قرار دیا جا رہا ہے۔آٹھ فروری کے انتخابات سے قبل انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد نتائج اور آج عمران خان کی رہائی کے حوالے سے جاری تحریک سے جس طرح نمٹا جا رہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔حکومتی اتحادی جماعتوں میں تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اتفاق رائے نہیں ہے۔تحریک انصاف بھی اس حوالے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل نہیں رکھتی البتہ عمران خان کی طرف سے الیکشن کے فوری بعد کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور ایم کی ایم کے سوا باقی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا جا سکتا ہے۔جب ان سے مذاکرات کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو عمران خان یہی کہتے ہیں کہ ہمارے تین مطالبات پہلے تسلیم کیے جائیں۔نمبر ایک تمام گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے، نمبر دو نو مئی اور آٹھ فروری کے انتخابات کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔ان کا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارا مینڈیٹ تسلیم کیا جائے۔اس حوالے سے تحریک انصاف کا دعوی ہے کہ فارم 45 پر ان کی پارٹی کے 180 لوگ جیت چکے تھے جن کو فارم 47 کے ذریعے شکست سے دو چار کر کے پنجاب اور مرکز میں حکومتیں بنائی گئی ہیں۔اگر ان میں سے تیسرا مطالبہ ہی تسلیم کر لیا جاتا ہے تو پھر مذاکرات کی تو ضرورت ہی نہیں رہتی۔
زبیر عمر کی طرف سے یہ کہہ کر نیا کٹا کھول دیا گیا ہے کہ جنرل باجوہ اورنواز شریف کی عدم اعتماد سے قبل لندن میں دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔شہباز شریف نے جنرل باجوہ کو ایک مرتبہ پھر ایکسٹینشن دینے کا یقین دلایا تھا۔زبیر عمر کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے نواز شریف سے ملاقات کے دوران بتایا کہ میں تو عمران خان کی حکومت کا خاتمہ 2020 ہی میں کرنا چاہتا تھا۔اس حوالے سے زبیر عمر کے ذریعے آپ کو پیغام بھی دیا گیا تھا لیکن زبیر عمر نے آپ کو پیغام نہیں پہنچایا۔زبیرعمر کی باتیں اگر سچ ہیں تو یہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ آرمی چیف سیاست میں کتنے ملوث تھے اگر زبیر عمر کی طرف سے غلط بیانی کی گئی ہے تو پاکستان کی سیاست میں المیہ سے کم نہیں ہے۔زبیر عمر نواز شریف کے بہت قریب اور مریم نواز اور نواز شریف کے ترجمان ہوا کرتے تھے۔زبیر عمر کے بیان کی آج کے میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور ترجمان عرفان صدیقی کی طرف سے تردید کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ جنرل باجوہ اور نواز شریف کے مابین 2017 کے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔میاں نواز شریف کے دونوں ترجمانوں میں سے ایک ہی سچ کہہ رہا ہے۔سچ اور جھوٹ میں امتیاز کرنے کے لیے کیا یہاں بھی کوئی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے چین کے انٹرنیشنل افیئرز کے وزیر لیوجیان چاؤ نے وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا یہاں پہ سی پیک پر مشترکہ مشاورتی کانفرنس بلائی گئی جس میں ساری پارٹیوں کو مدعو کیا گیا۔آج کے حکمران تحریک انصاف کو قریب نہیں پھٹکنے دے رہے مگر اس کانفرنس میں تحریک انصاف کی نمائندگی سینٹر علی ظفر نے کی۔چین میں شہباز شریف کے ساتھ وزیراعظم اور صدر کی ملاقاتوں میں دو پوائنٹس پر زور دیا گیا تھا کہ چینی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔پاکستان میں تمام پارٹیوں کی کانفرنس ہوتی ہے اس میں چینی سفیر کی طرف سے مزید ایک پوائنٹ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے کہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر چلنا ہوگا۔آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج پر برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تو حکومت نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ تو پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے کسی ملک کو اس میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر چین کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اس پر حکومت کی طرف سے منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا شاید اس لیے کہ ان سے نقد امداد کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔
چین کی طرف سے سکیورٹی اور سٹیبلٹی کے حوالے سے دیا گیا مشورہ بجا ہے۔یہ حکومت تحریک انصاف کو چین پاکستان مشترکہ کانفرنس میں بلانے کی روادار نہیں تھی مبینہ طور پر چین کے زور دینے پر تحریک انصاف کو دعوت دی گئی علی ظفر کی طرف سے چینی وزیر کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ سی پیک پر سپیڈ کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
آج پاکستان میں سیکیورٹی کے حالات مخدوش ہیں آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں۔وزیراعظم اور آرمی چیف دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار سکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں کی میتوں کو کندھا دے دے کر تھک گئے ہیں۔اب چین کی طرف سے سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے تو اس پر حکومت کی طرف سے آپریشن عزم استحکام لانچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس سے پہلے آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی تھی۔ اس کے بعد جنرل باجوہ نے شاید اپنی نمود کے لیے آپریشن رد رد الفساد شروع کیا اس سے قبل ہی دہشت گرد پاکستان سے فرار ہو چکے تھے۔ مگراب دہشت گرد ایک بار پھر متحد ہونے اور پاکستان میں صورتحال کو بدتر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اسی تناظر میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی نے ملک میں جاری دہشتگردی کے خلاف عزم استحکام آپریشن شروع کرنے کی منظوری دے دی۔وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وزیر اعظم ہاؤس میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزرا، تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، عسکری قیادت و دیگر نے شرکت کی۔اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق فورم نے دہشتگردی کے خلاف جاری مہم کا جامع جائزہ لیا اور انسداد دہشتگردی کی مؤثر حکمت عملی پر زور دیا۔اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم شہناز شریف نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی۔
اجلاس میں انسداد دہشتگردی کی ایک جامع اور نئی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ فورم نے کہا کہ ملک سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ کیا جائے، انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔
فورم نے فیصلہ کیا کہ کسی کو ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے ایس او پیز جاری کیے گئے، چینی شہریوں کو جامع سکیورٹی فراہم کرنے کے طریقہ کار میں اضافہ ہوگا۔
عزم استحکام آپریشن کو کامیاب بنانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ساری پارٹیاں اسی طرح سے متحد اور متفق ہوں جس طرح ضرب عضب کے موقع پر ہوئی تھیں ان دنوں بھی تحریک انصاف پہلے اکھڑی اکھڑی پھر رہی تھی پھر اس کو بھی ساتھ شامل کیا گیا تو ہی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متفقہ لائحہ عمل سامنے آیا تھا اور دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی تھی۔ آج بھی تحریک انصاف کو پیچھے چھوڑ کر ایسے آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتے۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کی حکومت تحریک انصاف کو جس طرح سے کارنر کر رہی ہے وہ قومی اتفاق رائے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ نہ صرف یہ کہ تحریک انصاف کو عزم استحکام آپریشن کے لیے اعتماد میں نہیں لیا گیا بلکہ وزیراعظم صاحب نے تو صوبائی حکومتوں پر بھی عدم اعتماد کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کا یہ کہنا بڑا معنی خیز ہے کی صوبوں اور اداروں کا خود کو بری الذمہ کر کے فوج پر انحصار خطرناک ہے۔
آپریشن ضرب عضب ،ردالفساد اور اب عزم استحکام
Jun 25, 2024