سولہویں صدی میں جب برطانیہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی بنی اس وقت ہندوستان برطانیہ کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ آبادی رکھتا تھا اور اقتصادی اور فوجی دونوں لحاظ سے برطانیہ سے بہت زیادہ آگے تھا اور برطانیہ اس وقت یہ سوچ بھی نہی سکتا تھا کہ کبھی وہ ہندوستان کے خلاف بھی کوئی مہم جوئی شروع کر سکتا ہے مثال کے طور پر جنگ پلاسی کے وقت بھی انگریز صرف 4000 اور نواب سراج الدولہ کے پاس 50000 فوجی تھے لیکن برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1601 میں پہلی دفعہ تجارت کے لئے آنے کے کوئی ڈیڑھ سو سال بعد پہلی دفعہ جنگ پلاسی میں میر سراج الدولہ کو میر جعفر کی غداری کی مدد سے شکست دینے کے بعد اپنے ہندوستان پر قبضے کے عزائم ایک بار پھر ظاہر کر دیے اس سے پہلے انگریز نے 1681 میں برطانیہ سے باقاعدہ 19 جنگی جہاز، 200 توپیں اور 600 باقاعدہ فوجی بلوا کر بنگال کے میر شائستہ خان کے خلاف جنگ کی جرات کی تھی لیکن اس وقت مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر میں ابھی اتنا دم خم تھا کہ اس نے انگریزوں کو انتہائی بد ترین شکست دی اور انکے تمام قلعوں سے انہیں نکال باہر کیا اور تمام تجارتی مراعات بھی ختم کر دیں لیکن انگریز نے ہمت نہی ہاری اور مختلف تحائف کے ساتھ مسلسل معافیاں مانگتے رہے اور اورنگزیب عالمگیر نے انہیں بالکل کمزور اور کسی قابل نہ سمجھتے ہوئے بالاآخر 1690 میں انہیں معاف کر دیا جو ایک تاریخی غلطی ہے اور اس غلطی کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں
میر شائستہ خاں آف بنگال کے خلاف اپنی مہم میں بد ترین شکست کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہمت نہی ہاری اور اس نے ہندوستان سے ولندیزیوں اور پرتگیزیوں کو نکالنے کی کوششیں شروع کر دیں اور پانڈی چری پر قبضے کی کوشش میں اسے ایک دفعہ پھر فرانسیسیوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا
ایسٹ انڈیا کمپنی کبھی بھی ہندوستان پر قبضہ نہ کر سکتی اگر نادر شاہ ہندوستان پر حملہ کر کے مغل بادشاہت کو انتہائی کمزور نہ کرتا نادر شاہ کے حملے کے بعد ہی مرہٹوں نے بھی سر اٹھایا اور جب 1757 کی جنگ پلاسی ہوئی اور بہترین جنگی سازوسامان سے لیس ایک برتر فوج اور ایک انتہائی بہادر نواب سراج سلدعلہ کے ہوتے ہوئے بھی میر جعفر کی بد ترین غداری کی وجہ سے نواب سراج الدولہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے شکست اٹھانا پڑی تو مغل بادشاہ وہاں بنگال میں کسی بھی قسم کی کوئی مدد نہ بھجوا سکا اور انگریز نے بظاہر تو میر جعفر کو واقعی نواب آف بنگال بنایا لیکن صرف نام کی حد تک وہاں پر اصل حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے مقرر کیا گیا انگریز ریزیڈینٹ افسر کرتا تھا اور 1765 میں تو مغل بادشاہ شاہ عالم نے بنگال پر باقاعدہ طور پر انگریز کی عملداری تسلیم کر لی اس طرع 1608 میں جہانگیر سے اجازت لے کر سورت میں تجارتی کوٹھی بنانے والی، 1639 میں مدراس میں سینٹ جارج قلعہ بنانے والی ،شاہجہان کے دور میں ہگلی میں تجارتی کوٹھی بنانے والی اور اورنگزیب کے دور مین کالی کٹ کے مقام پر تجارتی کوٹھی بنانے والی اور 1681 میں میر شائستہ خاں سے بدترین شکست کھانے والی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں اپنی آمد کے 165 سال بعد ایک ریاست پر باقاعدہ حکمران بن بیٹھی
بنگال پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری اور مختلف ریاستوں میں انگریز ریزیڈینٹ افسروں کی موجودگی کو کسی اور حکمران نے خطرہ محسوس ہی نہی کیا صرف سلطان حیدر علی نے انگریز کے عزائم کو محسوس کرتے ہوئے انہیں ہندوستان سے نکالنے کے لئے دو اینگلو انڈین جنگیں لڑیں اور انگریزوں کو مکمل شکستین دیں اور نواب حیدر علی نے انگریز کے خلاف اپنی مہم کے دوران انگریز کو کسی لوکل حکمران کا اتحاد حاصل نہ ہونے دیا لیکن نواب حیدر علی خان کی وفات سے انگریز ایک دفعہ پھر ہندوستان سے بھاگنے سے بچ گیا اگرچہ ٹیپو سلطان انتہائی بہادر معاملہ فہم اور پیش بینی کی صلاحیت رکھنے والا حکمران تھا اور ٹیپو سلطان نے اپنے اسلحہ کو بھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سب سے بہترین بنا لیا تھا لیکن اس وقت جب ٹیپو سلطان نے دو بڑی جنگوں میں انگریزوں کو عبرتناک شکستیں دین اور انہیں انکے تمام قلعوں سے بھگا دیا اس وقت انگریزوں پر ٹیپو سلطان کی اتنی دہشت بیٹھ گئی تھی کہ انگیز ٹیپو سلطان کا نام سن کر ہی تھر تھر کانپنے لگ جاتے تھے اور اس وقت برطانیہ میں جب انگریز بچے روتے تھے تو ان کی مائیں انہیں یہ کہہ کر چپ کرواتی تھیں کہ بیٹا چپ ہو جاو نہی تو ٹیپو سلطان آ جائے گا لیکن بدقسمتی سے اس وقت ہمسایہ ریاستوں جیسا کہ حیدرآباد اور مرہٹوں نے انگریز کی ایما پر ٹیپو سلطان کے خلاف باقاعدہ جنگیں شروع کر دیں جس سے بھاگتے ہوئے انگریز کو واپس آنے کا ایک راستہ ملا اور پھر اس نے میر صادق جیسے غدار تلاش کر کے اور حیدرآباد اور مرہٹوں سے ٹیپو سلطان کے خلاف جنگ کروا کے بالاآخر 1799 میں سرنگا پٹم میں ٹیپو سلطان جیسی مضبوط دیوار کو بھی کامیابی سے اپنے راستے سے ہٹا دیا اور پھر اگلے 58 سالوں میں انگریز نے 1858 میں باقاعدہ ہندوستان پر ملکہ برطانیہ کی حکومت کا اعلان کر دیا
اس میں کوئی شک نہی کہ 1857 کی جنگ زادی میں بھی جنرل بخت خاں،مولانا فیض احمد بدایونی،عظیم خان کانپوری حضرت محل ، تانیتہ ٹوپے ، رانی ف جھانسی جیسے بہت سے حریت پسندوں نے بہادری کی داستانیں رقم کرتے ہوئے انگریز کو نہ صرف دہلی سے بھگا کر نکال باہر کیا بلکہ تقریبا ہر جگہ پر انگریز کو بد ترین شکستیں دیں لیکن ہمارا المیہ کہ انگریز کو پھر غدار مل گئے وطن سے اور انہوں نے ابتدائی بد ترین شکستوں کے باوجود غداران ملک و ملت کی مدد سے بالاآخر ہندوستان پر برطانیہ کی باقاعدہ عملداری قائم کر لی جس نے 90 سال کے عرصہ میں ہندوستان کے تمام تر اثاثے برطانیہ منتقل کر کے برطانیہ کو اقتصادی طور پر مضبوط بنا دیا اور ہندوستان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا
اس ساری تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اگر جہانگیر انہیں اجازت اور مراعات نہ دیتا تو یہ ہندوستاں میں آ ہی نہ سکتے، اسی طرع اگر شاہجہاں انہیں مزید مراعات نہ دیتا تو یہ کبھی مضبوط نہ ہو پاتے، اسی طرع اگر اورنگزیب عالمگیر میر شائیستہ خاں کے خلاف ایسٹ انڈیا کمپنی کی مہم جوئی کے بعد انہین 1681 میں بد تریں شکست دینے کے صرف نو سال بعد 1690 میں معاف نہ کرتا تو انگریز کا ہندوستان کی تاریخ میں نام تک نہ ہوتا، اسی طرع نواب سراج الدولہ کے خلاف جنگ پلاسی کے وقت میر جعفر اور ٹیپو سلطان شہید کے خلاف مہم جوئی کے وقت میر صادق جیسے غداران ملک و ملت ایسٹ انڈیا کمپنی کو نہ ملتے اور حیدرآباد جیسی ریاستیں اور مرہٹے انگریز کے خلاف جنگ کے وقت ٹیپو سلطان کے خلاف انگریزوں کا ساتھ نہ دیتے تو شاید ٹیپو سلطان نہ صرف یندوستان سے انگریز کو مکمل طور پر نکال دیتا بلکہ برطانیہ میں بھی انکا رہنا مشکل بنا دیتا اسی طرح 1857 کی جنگ آزادی کے وقت اگر حریت پسندوں میں کوئی ربط یا مرکزیت پیدا ہو جاتی تو بھی یقیننا ہندوستان کی تاریخ میں انگریز حکومت کبھی نہ بن پاتی مختصرا یہ کہ قدرت نے ہندوستان والوں کو سبق سیکھنے اور غلطیوں کو نہ دہرانے کے بار بار مواقع دئے لیکن ہندوستانیوں نے تمام مواقع ضائع کر دئے
میں سب سے زیادہ ذمہ داری مرکزیت نہ ہونے کی ہے کیونکہ کوئی مرکزی حکومت نہی رہی تھی نادر شاہ کے حملوں کے بعد ،اس کے بعد یہ فیکٹر بہت اہم ہے کہ سوائے ٹیپو سلطان اور حیدر علی کے کسی ریاست نے یہ محسوس ہی نہی کیا کہ انگریز ہندوستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے انگریز کو پوری تاریخ میں کسی بھی وقت صرف ایک ہی ریاست کے خلاف لڑنا پڑا بلکہ بعض اوقات تو کسی ایک ریاست کے خلاف انگریز کی جنگ کے وقت دوسری ریاستوں نے باقاعدہ انگریز سے اتحاد قائم کئے اسی طرع طاقتور مغل حکمرانوں نے پیش بینی سے بالکل عاری ہو کر انہیں نہ صرف تجارتی مراعات دیں بلکہ سکیوریٹی گارڈ کے نام پر فوج بھرتی کرنے اور تجارتی سامان رکھنے کے نام پر قلعے بنانے کی اجازت بھی دی، اسی طرع اورنگزیب عالمگیر کا 1690 میں انہیں معاف کر دینا پھر غداران ملک و ملت کی غداریوں اور ٹیپو سلطان کی طاقتور مہم کے وقت حیدرآباد اور مرہٹوں کا ایسٹ انڈیا کمپنی سے باقاعدہ اتحاد اور پھر مغلوں کی مرکزی حکومت کا کمزور ہونا ، نادرشاہ کا ہندوستان پر بد ترین حملہ اور مختلف ریاستوں کا انگریز سے اتحاد اور ہندوستانیوں کے آپس میں ربط کی کمی نے انگریز کو ہندوستان پر حکومت قائم کرنے میں مدد دی آج ہمیں تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی افواج اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا کر کے اپنے عزائم کی تکمیل کے خواب ریکھنے والے دشمن کی پالیسیوں کا منہ توڑ جواب دینا چایئے اور اپنی افواج اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنانا ہے
ہندوستان پر انگریز کا قبضہ تاریخ کے جھروکوں سے ہمارے لئے کچھ سبق
Jun 25, 2024