عجیب بات یہ ہے کہ منافقت کی کالی زمین پر جھوٹ اور حسد کی کدال سے
جب کوئی کسی دوسرے کو زندہ درگور کرنے کے لیے گہری قبر کھود رہا ہوتا ہے اسی لمحے قدرت اپنی تمام تر سچائی سے دور کھڑی اس کی کم عقلی پر ہنستے ہوئے وقت کے ہاتھ پر لمحوں کی قلم سیاسکا انجام لکھ رہی ہوتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ کم عقل انسان حسد کی اس قبر میں تو جلد یا بدیر تجھے خود دفن ہونا ہے ‘‘کم عقل بے خبر حسد کی آگ جو تونے دل میں جلائی ہے اور اس میں منافقت کی گیلی لکڑیاں ڈالکر اپنے وجود دل دماغ اور روح کے ساتھ اپنی نیکیاں جلا رہا ہے تو نہیں جانتا کہ یہ آگ دراصل تو اپنے اور اپنی نسلوں کے مقدر کو جلانے کی تیاری کر رہا ہے۔۔سنبھل جا باز آ جا رب کی تقسیم پر راضی ہونا سیکھ لے۔۔ حسد کے انگارے زبان پر رکھ کر حسد میں جلتے الفاظِ بد سے کسی کے دامن کی پاکیزگی کی سفید چادر کو جلا کر راکھ کرنے کی کوشش نہ کر کہیں تیرے الفاظِ بد تیری اور تیری آنے والی نسلوں کے مقدر میں بد کرداری نہ لکھ دے۔۔۔کسی کا برا سوچ کر اسے گرانے کے چکر میں تو کتنا گر چکا ہے۔۔ضمیر کے آئینے میں اپنا شیطانی چہرہ اگر دیکھ لے تو شاید یہ تسلیم کرنے سے ہی انکا ر کر دے کہ یہ تیرا بھیانک چہرہ ہے۔۔
سانپ بچھو مقدر میں لکھتے رہے
غیبتیں جتنے بھی لوگ کرتے رہے
اْن کی نسلیں پنپ ہی نہیں پائیں گی
آگ میں جو حسد کے ہی جلتے رہے
پھر مکافاتِ ہوگا بچیں گے نہیں
دوسروں پر جو الزام دھرتے رہے
چین ان کو ملے گا یہاں نا وہاں
جو گناہوں سے کھاتوں کو بھرتے رہے
تو سن اے بے خبر نادان رب بے نیاز ہے وہ جہاں رحیم کریم ہے وہاں قہار بھی ہے۔۔ ظالم بننے سے مظلوم بننا کہیں بہتر ہے کیونکہ مظلوم انسان رب کے قریب ہوتا ہے۔۔ چل آ ابھی بھی وقت ہے توبہ کے آب ندامت سے حسد کی آگ کو بجھا۔۔۔۔ روح دل ذہن پر لگے گناہوں کے داغوں کو دھو لے۔۔۔رب کی تقسیم پر راضی بہ رضا رہنا سیکھ شکر کے کلمے سے زبان کو تر کر کے رب کی تقسیم پر راضی بہ رضا رہنا سیکھ۔۔ دل کو درگاہ بنا۔۔۔ شکر کی اگر بتیاں سلگا کر عجز کا جا? نماز بچھا کر رب کی بارگاہ میں توبہ کے اشک بہا۔۔اور مرنے سے پہلے کی زندگی صاف نیت نیکدلی سے جی جا۔۔ روح دل ذہن پر لگے گناہوں کے داغوں کو دھو لے ۔۔ اپنی اس زندگی میں کیئے گئے نیک اعمال سے اپنی آنے والی ہمیشہ رہنے والی زندگی کو سنوار جا۔۔ اپنی قبر کی وحشتوں میں نیکیوں کے اور رب کے ذکر سے دئیے جلانے کی فکر خود پر لازم کر لے جو قبر میں راحت کا سبب بنیں۔۔۔۔۔
جو سنبھل کر چلے عجز کی راہ پر
وہ دْعا سے مقدر بدلتے رہے
آخرت اور دنیا میں ہیں سرخرو
جو بھلا ہی بھلا سب کا کرتے رہے
منزلوں کا پتا اْن کو مل جائے گا
رب کے رستے پہ سیدھے جو چلتے رہے
روزِ محشر مْرادیں وہ ہی پائیں گیں
شاز سجدے میں توبہ جو کرتے رہے
شاز ملک
حسد اور منافقت ‘‘
Jun 25, 2024