پیر کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ جب سے صحافت میں قدم رکھا ہے وطن عزیز کو ہمیشہ ’’مشکل حالات‘‘ میں گھرا پایا۔ مشکل حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے متعدد تحاریک کا بطور صحافی نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ شہری حقوق کا دائمی گرویدہ ہوتے ہوئے ان میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ ڈالنے کی کوشش بھی کی۔ وہ تحاریک مگر نظر بظاہر اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب ہوگئیں تو ملک پہلے سے بھی برے حالات میں گرفتار ہوا نظر آیا۔ اس ضمن میں شدید ترین مایوسی ذاتی طورپر افتخار چودھری کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کے بعد محسوس کی۔ ’’عوامی حمایت‘‘ کی بدولت منصب پر لوٹے چودھری نے خود کو مسیحائے وقت ثابت کرناشروع کردیا۔ ازخود نوٹسوں کی بھرمار سے ثابت کیا تو فقط اتنا کہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئی مقننہ یا پارلیمان ریاست کا سب سے بدعنوان ادارہ ہے۔ اس کے کرتوتوں پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی یہ بھی ہوئی کہ ہم صحافیوں کی اکثریت کو موصوف کا رویہ بہت بھایا۔ خاص طورپر ٹی وی چینلوں کی چاندی ہوگئی۔ ان کی جانب سے لئے ازخود نوٹس اور بعدازاں ان کی بدولت ہوئی کارروائی کے دوران عدالتوں کی جانب سے آئے ریمارکس ٹی وی سکرینوں پر سنسنی خیز اور چسکہ دار ٹکروں کی رونق لگادیتے۔
دن کا بیشتر وقت سپریم کورٹ کے ہاتھوں سیاستدانوں کو جعلی ڈگریوں والے بدعنوان ثابت کرنے میں گزرجاتا تو شام سات بجے کے بعد ٹی وی سکرینوں پر متوازی عدالتوں کی دوکانیں کھل کر رات بارہ بجے تک عوام کو عجب کرپشن کی غضب ناک کہانیاں سناتے ہوئے ہیجان میں مبتلا رکھتیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر مقبول سے مقبول تر ہونا شروع ہوگیا کہ پاکستان کے تمام سیاستدان ایک جیسے ہیں۔ اقتدارمیں باریاں لیتے ہیں۔حکومتی اختیارات کو ذاتی کاروبار چمکانے کیلئے بے دریغ انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے بیرون ملک قیمتی جائیدادیں خریدتے ہیں۔
’’باریاں‘‘ لینے والے بری طرح بے نقاب ہوگئے تو کرکٹ کی وجہ سے کرشمہ ساز ہوئے عمران خان شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے بعد عوام کی کثیر تعداد کو عصر حاضر کے مسیحا محسوس ہونا شروع ہوگئے۔ پاکستان کے بنیادی، قدیم اور پیچیدہ مسائل کے حل کیلئے ان کا سادہ مگر جارحانہ انداز میں بیان کردہ نسخہ نوجوانوں کو بہت پسند آیا۔ ریگولر کے علاوہ سوشل میڈیاکے ماہرانہ استعمال کے ذریعے تحریک انصاف اپنے بیانیے کو موبائل فونز کے ذریعے تقریباََ ہر گھر پہنچانے لگی۔ بالآخر 2018ء میں وہ اقتدار میں آگئے۔ وزیر اعظم بنتے ہی ’’سیم پیج‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے قمرجاوید باجوہ اور ان کے ادارے سے ملکی مسائل کا حل طلب کرتے رہے۔ پارلیمان میں بیٹھی اپوزیشن سے ہاتھ تک ملانا گوارا نہ کیا۔ جاوید اقبال کے احتساب بیورو پر ہمہ وقت دبائو بڑھاتے رہے کہ وہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو ’’عبرت کے نشان‘‘ بنائیں۔
احتساب بیورو کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہوتے سیاستدان ابتلا کے اس دور میں دیرپاسیاسی عمل کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہوئے فقط اپنی بقا اور تحفظ کی خاطر خود کو عمران خان کی جگہ ’’سیم پیج‘‘ کا حصہ بننے کی کاوشوں میں مبتلا ہوگئے۔ بالآخر 2022ء کا آغاز ہوتے ہی ان کے دن ’’اچھے‘‘ دِکھنا شروع ہوگئے۔ قمر جاوید باجوہ دریں اثناء ’’جیوپالیٹکس‘‘کے بجائے ’’جیواکنامکس‘‘ کی اہمیت دریافت کرچکے تھے۔ اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ ریاست کے طاقتور ترین ادارے کے مزید کچھ عرصے تک سربراہ رہنا چاہتے تھے۔ انہیں مگر خدشہ لاحق ہوگیا کہ عمران خان اس کے لئے آمادہ نہیں ہوں گے۔ وہ باجوہ صاحب کی جگہ فیض حمید کو ’’سیم پیج‘‘ پر لانا چاہ رہے ہیں۔ ’’سیم پیج‘‘ کی تمنا ہی بالآخر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا باعث ہوئی۔ وہ کامیاب ہوئی تو ’’سیم پیج‘‘پر آجانے کے باوجود بھان متی کا کنبہ دکھتی شہباز حکومت عوام کو مہنگائی کے بدترین سیلاب کے سپرد کرتی نظر آئی۔
’’سیم پیج‘‘ کی تمنا میں ہوئی فدویانہ سیاست کے بارے میں مجھ جیسے بدنصیب صحافی لکھیں تو کیا لکھیں۔ یہ سوچتے ہوئے اکثر یہ ارادہ باندھا کہ صحافت سے واقعتا ریٹائر ہوجائوں۔ریٹائرمنٹ کا ذہن بناتا ہوں تو تنہائی میں بیٹھ کر دریافت یہ ہوتا ہے کہ نوکری کے بغیر چھ سے زیادہ ماہ گزار نہیں پائوں گا۔ صحافت کے شعبے میں داخل ہونے کے بعد سے بے روزگاری کے طویل وقفوں کا سامنا کرتا رہا ہوں۔ آخری بار یہ واقعہ عمران خان کے اقتدار سنبھالتے ہی اکتوبر2018ء سے شروع ہوا تھا۔ ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’دی نیشن‘‘ نے ساڑھے تین برس تک مجھے سہارا دیا۔ بیوی اگر کام نہ کررہی ہوتی تو بقیہ زندگی قرض لینے اور اتارنے ہی میں گزرجاتی۔ پرنٹ میڈیا مگر اس وقت پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں اپنی بقاء کیلئے جاں بلب ہوا ہاتھ پائوں ماررہا ہے۔ اس دوران لوگوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ ’’حقیقی صحافی‘‘ ملازمت کا محتاج نہیں رہا۔ یوٹیوب نے اسے نہ صرف ’’خودمختار‘‘ بنادیا ہے بلکہ اس کی بدولت پھیلائے ’’سچ‘‘ کے عوض ڈالروں میں خاطر خواہ رقم بھی کمائی جاسکتی ہے۔ مجھ جیسے فرسودہ خیالات کے حامل صحافی اگر یوٹیوب کے ذریعے حق وسچ بیان کرنے کے قابل نہیں رہے تو اپنی کوتاہی پرواز کے رونے روتے ہوئے ان کا وقت ضائع نہ کریں۔
اس رائے کا احترام کرتے ہوئے عید شروع ہوتے ہی میں نے دو دن کی تعطیلات گزرنے کے بعد بھی کالم نہیں لکھا۔ وقفہ طویل ہوگیا تو ایک موثر تعداد میں قارئین، جن میں سے اکثر کو میں ذاتی طورپر جانتا بھی نہیں تھا پریشان ہوگئے۔ ان کی محبت نے احساس دلایا کہ گوشہ نشینی کی سہولت مجھے میسر نہیں۔ دوبارہ آنے والی تھاں پر آگیا ہوں۔ آج کی روزی آج کمانے کے لئے قلم اٹھایا تو یاد آیا کہ رواں ہفتے کے دوران سپریم کورٹ نے چند اہم ترین معاملات پر غور کرنا ہے۔ کلیدی قضیہ خواتین اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں سے متعلق ہے۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوا معاشرہ مگر مذکورہ موضوع پر ہوئی بحث کے دوران فریقین کے دلائل پر توجہ نہیں دے گا۔ اپنی ترجیح کے مطابق سپریم کورٹ کے بنچ پر بیٹھے ہر معزز جج کے رویہ کا جائزہ لیا جائے گا۔ انصاف کے حصول کے بجائے ہمارے اذہان یہ طے کرنے کو بے چین رہیں گے کہ سپریم کورٹ کے کونسے عزت مآب جج کس انداز میں ’’تاریخ بنائیں گے‘‘۔ میری بدقسمتی کہ اپنے طویل صحافتی سفر کے دوران کئی بار ’’تاریخ‘‘ بنتے دیکھی ہے۔ یہ لکھتے ہوئے مزید دْکھ ہورہا ہے کہ ہمارے ہاں ’’تاریخ‘‘ جب بھی بنی خیر نہیں بلکہ بالآخر شر ہی بھڑکانے کا سبب ہوئی۔ کاش اب کی بار کچھ مختلف ہوجائے۔