اور جنریٹر پھٹ گئے

جانے کیا ہوا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کیخلاف آپریشن کی خبر سنتے ہی گرڈ سٹیشنوں پر قبضے کرنے والی جماعت کے اپنے گرڈ سٹیشن اڑ گئے۔ایک گرڈ سٹیشن تو قومی اسمبلی میں ایسے پھٹ پڑا کہ خدا نہ کرے کوئی دشمن بھی نہ پھٹے۔ دیکھتے ہی دیکھتے موصوف گرڈ سٹیشن سے آتش فشاں پہاڑی بن گئے ، ایسی پہاڑی جس کے دہانے سے شعلے کم، دھواں اور راکھ زیادہ اڑتی ہے۔ یاد رہے یہ وہی گرڈ سٹیشن ہیں جنہوں نے اپنی سپیکری کے آخری دن کے آخری گھنٹے کے آخری لمحات میں اخبار نویسوں کو ناقابل سماعت، ناقابل اشاعت گالی دی تھی۔ گرڈ سٹیشن صاحب نے فرمایا کہ یہ لوگ ہماری لاشوں سے گزر کر ہی ٹی ٹی پی تک پہنچیں گے، ہم عوام کے ساتھ ان کی مزاحمت کریں گے۔ ایک دوسرے گرڈ سٹیشن نے فاٹا والوں سے اپیل کی کہ وہ مسلح مزاحمت کیلئے نکل آئیں۔ انہوں نے ایوان میں ٹی ٹی پی زندہ باد کے نعرے بھی لگوائے۔ 

گرڈ سٹیشنوں کو خبر ہو کہ ان کی لاشوں سے گزرنے کی نوبت نہیں آئے گی، خدا انہیں سلامت رکھے۔ ’’وہ‘‘ ان کے دائیں بائیں سے ہو کر نکل جائیں گے۔ وہ ٹی ٹی پی کا مقابلہ کرنے جا رہے ہیں، گرڈ سٹیشنوں کیخلاف کارروائی کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں۔ 
آپریشن تو ہو گا کہ سی پیک کا مسئلہ اب پاکستان کی زندگی موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ٹی ٹی پی کے وہ ہزاروں دہشت گرد جو گرڈ سٹیشنوں نے افغانستان سے پاکستان امپورٹ کئے تھے، بچ جائیں ، اب یہ بہت مشکل ہے، ان دہشت گردوں نے دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ کر کے سی پیک کے روٹ بند کر دئیے ہیں۔ پاکستان کی زندگی، سلامتی، اور خوشحالی کے امکانات سے گرڈ سٹیشن اتنے ناراض اور مشتعل کیوں ہیں؟۔ اس سوال کا جواب سبھی کو پتہ ہے لہٰذا یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ 
____
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد کا اسلام آباد میں دھرنا بالآخر 41 روز بعد ختم ہو گیا۔ یہ دھرنا 41 روز کیوں جاری رہا، اس کی وجہ دھرنے کیبشرکا کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ ان شرکا کی تعداد 41 تھی، 2 شہید ہو گئے اور باقی 39 رہ گئے۔ بہرحال 41 کی مناسبت سے دھرنا 41 دن جاری رہا۔ اگر شرکا چالیس ہوتے تو چالیس دن بعد ختم ہوتا۔ اگر تعداد سو ہوتی تو ابھی مزید دو مہینے جاری رہتا اور جو کہیں شرکا کی تعداد آٹھ سو چار ہوتی تو پھر بڑی مشکل ہو جاتی۔ پھر تو دھرنا 2026ء  میں ختم ہوتا۔ 
مشتاق احمد خاں کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے مگر کہا جارہا تھا کہ اس 41 نفری دھرنے سے جماعت کا کوئی تعلق نہیں۔ جماعت نے بھی بار بار اس دھرنے سے اپنی لاتعلقی ظاہر کی۔ یہ مزے کی بات ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ غزہ کے نام سے دئیے جانے والے دھرنے کا کوئی تعلق غزہ سے بھی نہیں ہے۔ 
پھر اس کا تعلق کس بات سے ہے یا تھا؟۔ یہ بات ہنوز صیغہ راز میں ہے، ایسا راز، جو واقفان اسرار بتاتے ہیں کہ خود مشتاق خاں کو بھی معلوم نہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟، یہ ہمیں بھی معلوم نہیں۔ 
بعض واقفان اسرار صحافیوں کا کہنا ہے کہ دراصل مشتاق احمد خاں وزیر داخلہ کے روئے روشن کا درشن کرنا چاہتے تھے یعنی ان کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے یعنی مشرف بہ زیارت ہونا چاہتے تھے، اسی لئے دھرنا دیا اور جب وزیر داخلہ نے درشن دے دیا تو انہوں نے درنا ختم کر دیا۔ گویا 41 روز تک اسلام آباد والوں کا جینا سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے حرام رہا، اس کے ذمہ دار وزیر داخلہ ہیں۔ وہ پہلے دن ھی درشن دے دیتے تو دھرنا پہلے روز ہی ختم ہو جاتا۔ واللہ اعلم!
____
دھرنا ختم کرنے کے بعد مشتاق احمد خاں نے ایک بیان میں مجوزہ فوجی اپریشن کی سخت مخالفت کی اور فرمایا کہ پشتون قوم کیخلاف کسی کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 
مشتاق صاحب اس بات کو ’’گول‘‘ کر گئے کہ ٹی ٹی پی والے جن لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، وہ بھی پختون ہیں، وہ جن لوگوں کو بھتہ کیلئے اغوا کر رہے ہیں، وہ بھی پختون ہیں اور دہشت گردی سے جن لوگوں کا جینا انہوں نے حرام کر رکھا ہے، وہ بھی پختون ہیں۔ 
اور انہوں نے ایک حالیہ رپورٹ نہیں پڑھی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں میں مقامی پشتون بہت کم ہیں، بھاری اکثریت ان میں افغان باشندوں کی ہے جن کو دہشت گردوں کے امام وقت ملّا ہیبت اللہ نے ٹریننگ ، ہتھیار اور پیسہ دے کر، گرڈ سٹیشنوں والی جماعت کی مدد سے پاکستان بھیجا ہے۔ 
____
روایات سے یہی ثابت ہے کہ دنیا کی آگ کو جہنم کی آگ سے کوئی مناسبت نہیں، جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے سینکڑوں ہزاروں گنا زیادہ ہے،لیکن عصر حاضر کے سب سے بڑے رحونیاتی سائنس دان نے انکشاف کیا ہے کہ جہنم کی آگ تو بہت ٹھنڈی ہے، اس کے مقابلے میں وہ ’’آگ‘‘ کہیں زیادہ ہے جو جیل کا پنکھا کولر بند ہونے سے دو منٹ کے اندر اندر پیدا ہو جاتی ہے۔ 
عظیم ترین سائنس دان نے چند برس پہلے میانوالی میں اپنے ہم پلّہ سائنس دانوں کے عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ اگر اللہ میاں نے مجھے دوزخ میں ڈال دیا تو مجھے ذرا بھی گرمی نہیں لگے گی (اس وقت کچھ حضرات نے موصوف کے اس فقرے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں ’’اگر‘‘ کا لفظ فالتو ہے)۔ اب انہی سائنس دان نے انکشاف کیا ہے کہ جیل میں جب پنکھا بند ہو جاتا ہے تو گرمی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ پنکھا دو منٹ سے زیادہ بند نہیں ہوتا کیونکہ جیل میں جنریٹر ہے۔ بجلی بند ہوتے ہی جنریٹر چلا دیا جاتا ہے اور اس عمل میں کبھی ایک منٹ کبھی زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگتے ہیں۔ 
اندازہ کیجئے، یہ دو منٹ کی گرمی کتنی سخت ہو گی جو جہنم کی گرمی سے ذرا بھی متاثر نہ ہونے والے کی برداشت سے بھی باہر ہو جاتی ہے۔ 
____
سانحہ سوات کی خبر تمام عالمی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے مخصوص زاویوں سے نشر کی ہے اور بعض نے پاکستان کو ’’ھارر سٹیٹ‘‘ (خوف کی ریاست) قرار دیا ہے۔ سبھی نے یہ تاثر دیا کہ پاکسان میں جنونی قاتلوں کا راج ہے۔ 
پاکستان کے اس امیج پر گنڈاپور کو ڈھیروں مبارکیں!

ای پیپر دی نیشن