گذشتہ کئی روز سے قومی اسمبلی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، قومی اسمبلی ملک کے معاشی، سیاسی، معاشرتی و سماجی رویوں کی آئینہ دار ہوا کرتی ہے۔ جو قومی اسمبلی میں ہو رہا ہے اگر یہی ہماری قوم کا چہرہ ہے، یہ قوم کا سیاسی حال اور مستقبل ہے، یہی سماجی رویے ہیں تو پھر جان لیں کہ ہم صرف تماشے ہی کر سکتے ہیں۔ کیا قومی اسمبلی صرف الزامات، نازیبا الفاظ، نامناسب رویوں، لعن طعن اور گالم گلوچ کے لیے ہی رہ گئی ہے۔ ثناء اللہ مستی خیل نے جو الفاظ قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ادا کیے ہیں اور جس انداز میں ان کے ساتھیوں نے قہقہے لگائے ہیں وہ ہماری قومی سوچ کی عکاسی ہے۔ ہماری سوچ اتنی آلودہ ہو چکی ہے کہ نہ ہمیں تہذیب رہی، نہ احساس رہا نہ خیال رہا نہ یہ سوچتے ہیں کہ کیا بول رہے ہیں، کہاں بول رہے ہیں، کب بول رہے ہیں اور کیوں بول رہے ہیں۔ یہ عوام کے منتخب نمائندوں کا حال ہے۔ یعنی اتنی آلودہ سوچ ہے اسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ سڑکوں پر جو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہیں وہ بیجا نہیں ہے۔ جب قوم کے رہنماؤں کی سوچ ہی آلودہ ہو جائے تو سڑکوں پر گندگی معنی نہیں رکھتی بلکہ سڑکوں، محلوں میں نظر آنے والے گندگی یہ بتاتی ہے کہ درحقیقت ہم کیا ہیں۔ یہ سوچتے، لکھتے کتنا کرب ہے یہ بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ میرا پاکستان ایسا نہیں تھا، نہ ہی میرے وطن کے لوگ ایسے تھے، نہ ہی میرے پاکستان میں رہنے والے اخلاقی لحاظ سے اتنی پستی میں گرے ہوئے تھے۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک و تشویشناک ہے۔ یعنی قومی اسمبلی اور گلیوں میں پھرنے والے اوباش لڑکوں کی زبان میں کوئی فرق نہیں رہا۔ ثناء اللہ مستی خیل نے جس انداز میں گفتگو کی ہے اس کے بعد انہیں ایک سیشن کے لیے نہیں کم از کم دس سال کے لیے نااہل ہونا چاہیے، ان کی اس سے کم سزا بنتی نہیں، اگر آپ معاشرے میں اصلاح چاہتے ہیں تو کسی ایک جگہ آ کر رکنا ضرور چاہیے، کسی ایک جگہ لائن لگانی چاہیے، کسی ایک جگہ سخت فیصلہ کرنا چاہیے، کیا قومی اسمبلی کے اراکین اس سانحے پر شرمندہ نہیں ہیں، کیا ان کے فحش الفاظ پر قہقہے لگانے والوں میں شرم نام کی کوئی چیز باقی ہے، کیا ایسے جملوں کے لیے الیکشن پراسیس پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ ہاکس بے پر کچرے کے ڈھیر ساحل کہ خوبصورتی کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہاں قوم ہے منتخب نمائندے اخلاقی پستی میں اس حد تک دب چکے ہیں کہ وہ عوامی مقامات پر گفتگو کے آداب ہی بھول چکے ہیں وہاں ہاکس بے پر پھیلے کچرے کو کچرا کون سمجھے گا۔ جہاں ذہن کچرے سے بھر جائیں وہاں سڑکوں گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر ہی نظر آئیں گے۔
خبر یہ ہے کہ ہاکس بے پر کچرے کے ڈھیر نے ساحل کی خوبصورتی کو خراب کردیا۔ ہاکس بے کے ساحل پر کچرا بڑی تعداد میں نظر آرہا ہے۔ کچرے میں پلاسٹک کی بوتلیں، ریپرز، فشنگ نیٹ کے ٹکڑے سمیت دیگر چیزیں سمندر سے ساحل پر آ گئیں۔آبی ماہرین کے مطابق مون سون میں سمندر میں لہریں اونچی ہوتی ہیں جس کے باعث بلند لہروں سے سمندر میں انسان کی جانب سے پھینکا جانے والا کچرا باہر آ جاتا ہے۔ ماہرین نے بتایاکہ کچرا پھینکنے سے سمندری حیات کو خطرہ ہوتا ہے اور سمندر اور ساحل کا ماحول بھی آلودہ ہوتا ہے۔ سمندر ہمارا کچرا باہر پھینک رہا ہے اور قومی اسمبلی کے اجلاس ہمارے ذہنوں کی غلاظت کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ یہ بہت سخت الفاظ ہیں لیکن اس سانحے کے بعد کسی نرمی کی کوئی گنجائش بہرحال نہیں رہتی۔ یہ قوم کی کیا رہنمائی کریں گے، پھر کہتے ہیں کہ اقتدار ایسے لوگوں کے حوالے کر دیا جائے، توبہ توبہ توبہ!!!!
ایک طرف علی محمد خان اللہ کے ننانوے ناموں کے نیچے کھڑا ہو کر تقریر کرتا ہے تو دوسری طرف وہ ایسی بدتمیزی، بدتہذیبی اور بداخلاقی کرنے والوں کا بھی حمایتی ہے۔ یہ قومی اسمبلی کا حال ہے۔ جہاں سوائے طعنوں، فحش جملوں، لعن طعن اور الزام تراشی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ فحش جملے ادا کرنے والوں کو شرمندگی بھی نہیں وہ اس بیحیائی پر فخر کر رہے ہیں اور ویسے ہی ان کے پسند کرنے والے ہیں جو واہ واہ کر رہے ہیں یعنی بدتہذیبی کرنے والوں کی ایک فیکٹری ہے۔ بدقسمتی سے اس معاملے میں ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے۔
امیر جماعت حافظ نعیم الرحمٰن کہتے ہیں کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے مزید نہ دبائے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی فوری ختم کی جائے۔ دو۔روز قبل جماعت اسلامی کی کال پر مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کے خلاف ملک گیر احتجاج میں شہر شہر احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔جماعت اسلامی کے احتجاج میں مہنگی بجلی نا منظور اور لوڈشیڈنگ بند کرو کے نعرے لگائے گئے۔ مہنگی بجلی سے ستائے مظاہرین کی جانب سے بلوں سے اضافی ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، ٹیکسوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو پہلے ٹیکس دیتے ہیں ان پر اور بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ جو ٹیکس نہیں دیتے ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے بجائے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی زندگی مشکل کی جا رہی ہے۔ حکومت اپنے اخراجات کم کیوں نہیں کرتی، حکومت اپنے وزیروں مشیروں کی مراعات کم کیوں نہیں کرتی۔ اگر ملکی معیشت مشکل میں ہے تو پھر اخراجات کم کرنا بھی سب کی ذمہ داری ہے۔ کیا حکومت نے اس حوالے سے کفایت شعاری کی کوئی حقیقی مہم شروع کی ہے اگر نہیں تو پھر صرف کمزور طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کس حد تک انصاف ہے۔
آخر میں محسن نقوی کا کلام
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا
موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا
تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا
آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا
زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
اب تو ابر و کا اشارا نہیں دیکھا جاتا
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسن
دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا