سیدنا حضرت عثمان غنی

خلیفہ سوم ،داماد رسول ؐ،پیکر جود و سخا سیدنا عثمان غنیؓ کو حضور اکرمؐنے کئی بار جنت کی بشارت دی اور آپ ؐ کو ’’عشرہ مبشرہ‘‘ صحابہ کرامؓمیں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ حضور اکرم کی دو بیٹیوں حضرت سیدہ رقیہؓ اور حضرت سیدہ ام کلثوم ؓ کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے حضرت عثمان عنیؓ کو ’’ذوالنورین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 

آپ نے خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابوبکرصدیق  ؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’نورِایمان‘‘ سے منور کیا، طبقات ابن سعد کے مطابق آپ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں جس کی وجہ سے آپ ’’السابقون الاوّلون‘‘ کی فہرست میں بھی شامل ہیں، آپ حافظ قرآن، جامع القرآن اور  ناشر القرآن بھی ہیں، ایک موقعہ پر حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی جنت میں عثمان غنیؓ ہوگا۔
امام مسلمؒ اور امام بخاری ؒ نے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عثمان غنی ؓ ہمارے پاس آتے تو حضور اکرم ؐاپنا لباس درست فرمالیتے اور فرماتے تھے کہ میں اس (عثمان غنیؓ) سے کس طرح حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔ اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے آپ کا لقب ’’ذوالہجرتین‘‘ بھی ہے آپ کا ظاہری حسن دو عظیم المرتبہ انبیاء کرام سیدنا حضرت ابراہیم ؑ ا ور حضور اقدس ؐ کے مشابہ تھا۔ 
آپ کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین ہے، آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرمؐ سے ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان غنیؓسفید رنگ ، خوبصورت و با وجاہت اور متوازن قدو قامت کے مالک تھے ، گھنی داڑھی اور دراز زلفوں کی وجہ سے سیدنا عثمان غنی ؓ جب لباس زیب تن کر کے ’’عمامہ‘‘ سے مزّین ہوتے تو انتہائی خوبصورت معلوم ہوتے۔ اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور ’’شرم وحیا‘‘ کی صفت میں بے مثال تھے۔ 
شروع ہی سے بڑے پیمانے پر تجارت کی بدولت آپ  کا شمار ’’صاحب ثروت‘‘ لوگوں میں ہوتا تھا، آپ عمدہ لباس اور لذیذ و نفیس غذاؤں کے عادی تھے لیکن اس سب کے باوجود آپ کی طرزِ زندگی سادگی سے عبارت تھی، رہن سہن ، اخلاق واطوار اور کردار میں آپ کا ہر کام ’’سنت نبوی ﷺ‘‘سے ہی آراستہ و مزین ہوتا، ایک مرتبہ وضوء سے فارغ ہوکر مسکرائے تو لوگوں نے اس موقعہ پر مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرم ؓکو وضوء کے بعد اسی طرح مسکراتے ہوئے دیکھا ہے۔ 
امامِ ترمذی، ؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’بیعتِ رضوان‘‘ کے موقعہ پر سیدنا عثمان غنیؓ ، حضور اقدس ؐ کی طرف سے ’’سفیر‘‘ بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ شہید کر دیئے گئے۔۔۔۔۔ حضور اکرم ؐنے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کریگا، اس وقت تقریباً چودہ سو صحابہ کرامؓنے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے حضور اکرم ؐ کے ہاتھ مبارک پر ’’موت کی بیعت‘‘ کی اس موقعہ پر حضور اقدسؐ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ ’’بیعت‘‘ عثمانؓ کی طرف سے ہے اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور ’’بیعت شجرہ‘‘ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے’’ بیعت رضوان ‘‘کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرمایا ہے۔  
حضرسیدہ رقیہؓ کی وفات کے بعد حضور اکرمؐ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت سیدہ امّ کلثوم ؓ کا نکاح بھی سیدنا عثمان غنیؓ سے کر دیا اس موقعہ پر حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ یہ جبرائیل امین علیہ السلام ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں اپنی دوسری بیٹی (ام کلثومؓ) کا نکاح بھی آپ (عثمانؓ) سے کردوں دوسری بیٹی سیدہ حضرت ام کلثومؓ کی وفات کے بعد حضور اقدسؐ نے فرمایا اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں اور ایک روایت کے مطابق حضور اقدسؐنے فرمایا کہ اگر میری سو بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے ان کو سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے نکاح میں دیتا رہتا۔۔۔۔۔۔
جنگ تبوک کے موقع پر حضور اقدسؐ نے صحابہ کرام ؓ کو اس جنگ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی۔۔۔۔ اس موقعہ پر صدق و وفاء کے پیکر خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا تمام سامان، مال و اسباب اور خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ نے نصف مال لاکر حضور اقدس ؐ کے قدموں میں نچھاور کر دیا ، ایک روایت کے مطابق اس موقعہ پر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کیلئے اللہ کے راستہ میں دیں حضور اقدس ؐ منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ آپ ؐ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ’’ماضرّ عثمان ما عمل بعد ہذا الیوم‘‘ آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔۔۔۔
حضرت سعید ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدسؐ کو دیکھا کہ اوّل شب سے طلوع فجر تک ہاتھ اٹھا کر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کیلئے دُعا فرماتے رہے آپ ؐ فرماتے تھے! اے اللہ میں عثمانؓ سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدس ؐ نے فرمایا کہ ! اے عثمان اللہ تعالیٰ نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں جو تجھ سے ہوچکے یا قیامت تک ہونگے۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس ؐ کو کبھی اتنا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپؐ کی بغل مبارک ظاہر ہو جائے مگر عثمانِ غنی ؓ کیلئے جب آپ ؐ دعا فرماتے تھے تو بغل مبارک ظاہر ہوجاتی تھی۔ 
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک ’’کتابتِ وحی‘‘ جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔۔۔ اس کے علاوہ حضور اقدس ؐ کے خطوط وغیرہ بھی لکھا کرتے تھے، حضرت عثمان غنیؓ کی یہ حالت تھی کہ رات کو بہت تھوڑی دیر کیلئے سوتے تھے اور تقریباً تمام رات نماز وعبادت میں مصروف رہتے ، آپ ’’صائم الدہر‘‘ تھے، سوائے ایام ممنوعہ کے کسی دن روزہ کا ناغہ نہ ہوتا تھا، جس روز آپ  آدمی تک رسائی ، ظلم و جور سے نفرت ، زیادتی اور تجاوز سے دوری آپ کے شاہکار کارناموں میں شامل ہے، آپ  کے پہلے چھ سال فتوحات و کامیابی و کامرانی کے ایسے عنوان سے عبارت ہیں کہ جس پر اسلام کی پوری تاریخ  ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ 
خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی کو مصر کے بلوائی شہید کرنے کے در پے تھے اور تقریباً ساڑھے سات سو بلوائیوں نے ایک خط کا بہانہ بنا کر ملک میں بد امنی پیدا کر کے مدینہ منورہ پر قبضہ کر لیا۔۔۔۔ اس دوران سیدناحضرت علی المرتضیٰؓ اور دیکر صحابہ کرامؓ نے باغیوں کا سر کاٹنے کی اجازت چاہی تو آپؓ نے اجازت دینے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ ! مجھ سے یہ نہ ہوگا کہ حضور ؐکا خلیفہ ہو اور خود ہی آپ ؐ کی امت کا خون بہاؤں۔۔۔۔۔ مدینہ منورہ میں بلوائیوں نے بغاوت کا ایک ایسا وقت طے کیا کہ جب مدینہ منورہ کے تمام لوگ حج پر گئے ہوں اور صرف چند افراد یہاں ہوں۔۔۔۔۔ تاکہ ایسے وقت میں امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کو خلافت سے دستبرار کر واکر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے اسلام کی پر شکوہ ’’قصرِ خلافت‘‘ کو مسمار کرتے ہوئے ، حضور اقدصؐ کے شہر کو آگ و خون میں مبتلا کر کے اسلام کی مرکز یت کو پارہ پارہ کر دیا جائے۔ 
ایک موقعہ پر حضورؐ نے فرمایا تھا کہ ! اے عثمان! اللہ تعالیٰ تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے، جب منافق اس خلافت کی قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو اس کو مت اتارنا یہاں تک کہ مجھے آملو (شہید ہو جاؤ) چنانچہ آخری وقت میں جب باغیوں اور منافقوںنے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ ! مجھ سے حضور اقدس ؐنے عہد لیا تھا(منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کرینگے تم نہ اتارنا) چنانچہ میں اس عہد پرقائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں، 35ھ ذیقعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا۔۔۔۔۔ حافظ عماد الدین نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں حضرت عثمان غنیؓ نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا ۔۔۔۔۔ محاصرہ دوران چالیس روز تک آپ کا کھانا اور پانی باغیوں نے بند کر دیا اور 18ذوالحجہ کو چالیس روز سے بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ،دوہرے داماد رسولؐ خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی ؓ کو جمعہ المبارک کے روز ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روزہ کی حالت میں انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ نے12 دن کم 12سال تک 44 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطہ پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کیا ۔ رضی اللہ عنہ 

ای پیپر دی نیشن