تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی ؓ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی تبلیغ سے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کیلئے اپنی جان و مال اور دولت کو اسلام پر نچھاور کر دینے میں کوئی کسر اْٹھا نہ رکھی۔آپ کا دامن قبول اسلام سے پہلے بھی ہر طرح کی بْرائی سے پاک تھا۔بچپن ہی سے عزت دار ایماندار اور اخلاق عالیہ کے مالک سمجھے جاتے تھے۔آپ کا شمار عرب کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا تھا۔پیشہ تجارت تھا اور اپنی ایمانداری سچائی اور بلند اخلاقی کی بدولت ایک کامیاب تاجر سمجھے جاتے تھے۔آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے اور آپ تیسرے خلیفہ راشد تھے۔لقب غنی تھا اور والد بزرگوار کا نام غفان تھا جو قبیلہ قریش میں منفرد حیثیت کے مالک تھے۔آپ کی ولادت عام الفیل کے چھٹے سال میں ہوئی اور ظہور اسلام کے وقت آپ کی عمر36 برس تھی۔نمایاں خصوصیت غنا تھی اور کردار کا اہم پہلو حیا تھا۔حضور ؐ نے فرمایا عثمان ؓ کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں۔آپ کا شمار امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا اور وہ سخاوت میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔اپنے مال و دولت کو فلاحی اور رفاعی کاموں میں لگاتے اور اہل خاندان کے نادار لوگوں کی خاص طور پر مدد کرتے تھے۔سینکڑوں بیواؤں یتیموں اور مسکینوں کی کفالت بھی آپ کے ذمہ تھی۔حضور ؐ سے اسقدر محبت کرتے تھے کہ آپ کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت اْم کلثوم ? یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں اسلئے آپ کو ذوالنورین یعنی دو نوروں والے کہا جاتا ہے۔حبشہ اور پھر مدینہ منورہ دونوں ہجرتوں میں آپ بھی شامل تھے اسلئے ذو الہجرتین بھی کہلائے۔حضور ؐ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جس ہاتھ سے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اس ہاتھ کو پوری عمر جسم کے کسی ناپاک حصے سے مس نہیں ہونے دیا۔مدینہ کے اکثر کنوؤں کا پانی نمکین تھا اور مسلمانوں کو میٹھے پانی کے حصو ل میں کافی تکلیف اْٹھانی پڑتی تھی۔بیئررومہ کے قدیم کنوئیں کا پانی میٹھا تھا مگر وہ ایک یہودی کی ملکیت تھی۔وہ مہنگے داموں پانی فروخت کرتا تھا جسے مہاجرین خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔حضور ؐ نے بیئر رومہ کو خرید کر وقف کرنے والے کو جنت کی بشارت سْنائی تو حضرت عثمان ؓنے بارہ ہزار درہم ادا کرکے پہلے کنوئیں کا آدھا حصہ خرید کر اور پھر مزید سہولت کیلئے 8ہزار درہم مزید ادا کر کے پورا کنواں خرید کر وقف کر دیا۔بعض مؤ ر خین نے کل قیمت 30ہزار درہم لکھی ہے۔
مسجد نبوی ؐ چھوٹی تھی اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعدادکے پیش نظر اسکی توسیع ناگزیر ہو چکی تھی۔آپ ؐنے فرمایا" جو شخص ملحقہ مکانات خرید کر مسجد کی توسیع کرے گا اللہ اس کے لئے جنت میں مکان بنائے گا "چنانچہ یہ سعادت حضرت عثمان ؓ کے حصے میں آئی۔آپ نے منہ مانگا معاوضہ دیکر مکانات خرید کر مسجد نبوی ؐ کو توسیع دینے میں بھر پور کردار ادا کیا۔ ماسوائے غزوہ بدر کے آپ نے تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔حضرت رقیہ ؓ کی بیماری کی وجہ سے حضور ؐنے آپ کو غزو بدر میں شرکت کی اجازت نہ فرمائی تھی۔مسلمانوں کے سفیر کے طور پر جب مکہ بھیجنے کیلئے انتخاب ہونے لگا تو حضرت عمر ؓنے حضرت عثمان ؓ کا نام پیش کیا جسے آپ نے بے حد پسند کیا۔چنانچہ ارشاد نبوی ؐ ہوا کہ رؤسائے مکہ سے جا کر مذاکرات کریں اور وہاں کے مسلمانوں کو تسلی دیں کہ ہرگز نہ گھبرائیں اللہ اپنے دین کو ضرور غالب کرے گا۔حضرت عثمان ؓکے مکہ روانہ ہونے کے بعد مسلمانوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ !عثمان ؓ بہت خوش نصیب ہیں جن کو خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا سب سے پہلے موقع مل جائے گا۔حضور ؐ نے فرمایا جب تک میں خانہ کعبہ کا طواف نہ کر لوں حضرت عثمان ؓ ہر گز نہ کریں گے چنانچہ یہی ہوا کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے مکہ کے سرداروں نے حضرت عثمان ؓ سے کہا کہ آپ پہلے خانہ کعبہ کا طواف کر سکتے ہیں مگر آپ نے کہا جب تک میرے آقاؐ طواف نہیں کریں گے میں کیسے کر سکتا ہوں۔حضرت عثمان ؓ کو مکہ میں روک لیا گیا۔پہلے اطلاع ملی کہ آپ کو قید کر لیا گیا ہے جبکہ بعد میں شہادت کی خبر ملی۔حضور ؐ نے شہادت کی خبر سْن کر فرمایا کہ ہم اس مقام سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکتے جب تک مشرکین سے بدلہ نہ لے سکیں۔قریب ہی ایک ببول کے درخت کے نیچے آپ ؐنے 1400صحابہ کرام ؓ سے بیعت لی کہ وہ جان دے دیں گے مگر بھاگیں گے نہیں۔آپ نے فرمایا عثمان ؓ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے کام پر گئے ہوئے ہیں۔چاہتا ہوں اس فضیلت میں وہ بھی شریک ہو جائیں۔چنانچہ آپؐ نے سیدھے ہاتھ کو ان کا ہاتھ قرار دے کر اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا"یہ عثمانؓ کی بیعت ہے"۔حضورؐ نے یہ فر ما کر آپ کو عظیم فضیلت عطا فرمائی۔یہ بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔سورہ فتح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"بے شک اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جنہوں نے درخت کے نیچے آپ ؐ سے بیعت کی"۔غزوہ تبوک کے موقع پرحضرت عثمان ؓ بن عفان اپنا ایک تجارتی قافلہ شام کی طرف روانہ کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔حضور ؐ کی اپیل سْنی تو حاضر ہو کر عرض کیا "یا رسول اللہؐ!یہ دو سو اْونٹ اور دو سو اوقیہ چاندی حاضر ہے ان سے لشکر کی تیاری فرمایئے"۔مہم کی اہمیت اور قیصر روم کی طاقت سے مسلح تصادم کے پیش نظر جب حضرت عثمان ؓ نے مزید دو سو اْونٹ مع ساز و سامان آپ ؐ کی خدمت میں پیش کر دیئے تو آپ ؐ نے فرمایا "اس کے بعد عثمان کا کوئی عمل (آخرت میں) اْن کو نقصان نہیں پہنچا سکتا"۔
جب مزید ایک ہزار دینار اپنی آستینوں میں بھر کر حضور ؐ کے قدموں میں ڈھیر کر دیئے تو حضور ؐنے ان کو بار بار اْلٹا پلٹا کر فرمایا "اے عثمان ؓ! اللہ تمہاری مغفرت فرمائے تم نے کس قدر خوش کیا اور کس قدر غنی کیا"آپ نے غلہ لانے والے ایک کاروان کا رْخ تبوک کی طرف پھیر دیا جہاں تیس ہزار مجاہدین کو اس غلہ کی سخت ضرورت تھی۔حضورؐ نے اس موقع پر یہ دعا فرمائی" اے اللہ! میں عثمان ؓ سے راضی ہو گیا تو بھی راضی ہو جا"۔پھر صحابہ کرام ؓ سے فرمایا "اے لوگو! تم بھی عثمان ؓ کیلئے دعا کرو"عہد فاروقی میں جب قحط پڑا تو اس وقت آپ نے غلہ باہر سے منگوایا۔جب حضرت عمر ؓ نے دوگنی قیمت پر غلہ خرید کر غریبوں میں تقسیم کرنا چاہا تو حضرت عثمان ؓ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اس کا پہلے ہی سود ا طے کر لیا ہے۔میں یہ غلہ مفت تقسیم کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس کا سات گنا اجر عطا فرمائے گا۔حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد مقتدر صحابہ کرام کی مشاورت سے حضرت عثمان کو خلیفہ مقرر کیا گیا۔قرآن و حدیث کی روشنی اور شیخین کے اقوال کی روشنی میں اْمور خلافت خوش اسلوبی سے سر انجام دیئے۔اسلامی فتوحات کا سلسلہ دور دور تک پھیل گیا۔ساتھ ہی فتنوں اور سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔جمعہ کے دن روزہ کی حالت میں جب قرآن پاک کی آیت نمبر 137تلاوت فرما رہے تھے تو شورش پسندوں نے دیوار پھاند کر قاتلانہ حملہ کیا۔وفا شعار بیوی حضرت نائلہ نے بچانے کی کوشش کی تو ان کی انگلیاں کٹ گئیں۔
آپ نے بلوائیوں کو مخاطب کر کے فرمایا یاد رکھو! اگر آج تم نے مجھے قتل کر دیا تو ایک ساتھ نہ نماز پڑھ سکو گے اور نہ جہاد کر سکو گے۔آپ کی شہادت سے اْمت میں اختلافات اور انتشار کا ایسا دروازہ کھلا جو آج تک بند نہ ہو سکا۔آپ غنی۔ذہین۔نرم خو۔معاملہ فہم۔اور نہایت سمجھدار انسان تھے۔صبر و تحمل اور عفو درگزر ان کا خصوصی وصف تھا۔مجسمہ خلق محبت تھے اور حضور ؐ سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔آپ کی شہادت عظمیٰ کا یہ واقعہ 18ذالحجہ 35ھ کو پیش آیاتھا۔