پاکستان ایشیا کا حکمران، یونس خان کے تین کیچ حسینہ واجد کا تعصب اور پاکستانیوں کی فراخدلی

حافظ محمد عمران
2012 میں پاکستان کا آغاز انتہائی اچھا رہا پہلے دنیا کی نمبر ون ٹیم انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں 3-0 سے کامیابی اور اب ایشیا کپ کے فائنل میں بنگلہ دیش کو ہرا کر ایشیا کی حکمرانی بھی حاصل کرلی ہے۔ فائنل میں سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلے کے بعد گرین شرٹس نے فتح حاصل کی ،پاکستان کی کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک فائنل میچ تھا جس میں شائقین نے کرکٹ کا اصل مزہ لیا۔فائنل میں کئی اتار چڑھاﺅ آئے کبھی بنگلہ دیش کا پلڑا بھاری ہوتا تو کبھی پاکستانی کھلاڑی حاوی آجاتے۔گیند اور بیٹ کے درمیان مقابلہ عروج پر رہا اور کسی بڑے ایونٹ کے فائنل میں ایک عرصے بعد اتنی اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ پاکستان کے اہم بلے باز خلاف توقع بڑی اننگز کھیلنے، زیادہ رنز کرنے میں ناکام رہے۔ ناصر جمشید نے ٹورنامنٹ میں عمدہ بلے بازی کی تاہم اہم معرکے میں وہ توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ سینئر بلے باز یونس خان امپائر کے غلط فیصلے کا نشانہ بنے۔ عمر اکمل اچھا کھیل رہے تھے تاہم ان کا آﺅٹ بھی مشکوک تھا‘ حماد اعظم اور عمر اکمل نے گرتی بیٹنگ کو سہارا دیا جلد بازی حماد اعظم کو لے ڈوبی‘ آﺅٹ ہونے کی پریکٹس کرتے کرتے شاہد آفریدی بھی32 رنز بنا گئے۔ سرفرازاحمد وکٹ پر ڈٹے رہے اور آخر تک آﺅٹ نہ ہو کر ٹیم کو لڑائی کرنے والے ٹوٹل تک پہنچا گئے۔ ۔ فیلڈنگ کے شعبے میں یونس خان کے تین کیچ ناقابل فراموش ہیں اگر پاکستان 2012ءکا ایشیا کپ جیتا ہے تو فائنل میں سابق کپتان کے تین کیچ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے اوپر کے تین کھلاڑیوں کے کیچ ہی پاکستان کو میچ میں واپس لیکر آئے اعزاز چیمہ کا کامیاب آخری اوور بھی اہمیت کا حامل ہے۔ میچ کے اختتام پر بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کی طرف سے تعصب اور پاکستان دشمنی کا بدترین واقعہ بھی پیش آیا جب بنگلہ دیش کی وزیراعظم اپنی ٹیم کی شکست پر انعامات تقسیم کئے بغیر چلی گئیں۔ انہیں سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے آخر تک گراﺅنڈ میں موجود رہنا چاہئے تھا۔ حسینہ واجد کے اس عمل نے اندرا گاندھی کی یاد تازہ کر دی جب 1982ءکی ایشین گیمز کے فائنل میں بھارت کو شکست دی تو اندرا گاندھی نے تقریب تقسیم انعامات میں شرکت نہ کی۔ دوسری طرف پاکستانیوں کا حوصلہ اور جذبہ کھیل دیکھیں‘ سارے پاکستان میں بنگالی کھلاڑیوں کو سپورٹ کیا جاتا رہا۔ لاہور میں بڑی سکرینوں پر فائنل دیکھا جا رہا تھا‘ زندہ دلان لاہور بنگالی کھلاڑیوں کو سپورٹ کرتے نظر آرہے تھے۔ اکثر و بیشتر شائقین کرکٹ بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں کے کھیل کی تعریف کرتے نظر آئے۔ پاکستانی تو یہ بھی کہتے رہتے کہ بنگلہ دیش بھی جیت جائے تو ہمیں خوش ہو گی۔ یہ پاکستانیوں کا پیغام ہے حسینہ واجد اور ان کے پیروکاروں کے لئے‘ مصباح الحق نے بھی مخالف ٹیم کے کھیل کی کھل کر تعریف کرکے بڑے بھائی کے ملک کا کپتان ہونے کا حق ادا کر دیا۔ کیا فائنل بھارت سے ہوتا اور بنگلہ دیش ہار جاتا تو بھی حسینہ واجد سٹیڈیم سے چل جاتیں؟

ای پیپر دی نیشن