ایک ملک کے طور پر تشکیل پانے والے ملک کو ”دشمنوں“ نے جب ”دو لخت“ کر دیا تو پھر ہم نے سنبھل سکے۔ پہلے قوم مذہبی بنیادوں پر ”فرقوں“ میں بٹی پھر طبقات میں تقسیم ہوئی اب حالت یہ ہے کہ ملک میں اجتماعی سوچ ختم ہو چکی ہے۔ وفاق مضبوط ڈھانچے کی جگہ ایک کمزور قوت کا حامل نظر آتا ہے۔ ایک دہائی قبل ”پروفیشنل سروسز“ والوں نے اپنی اپنی تنظیمیں بنا لی تھیں۔ ”سرکاری ملازمین“ کی بھی اپنی اپنی ایسوسی ایشنز بن گئیں۔ وفاق اور صوبائی سے بھی آگے قدم رکھتے ہوئے ہم علاقائی بنیادوں پر بھی مختلف البنیاد تنظیموں کو زیادہ طاقتور حیثیت دیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ”پریشر گروپس“ ہیں۔ مختلف شعبوں کے ماہرین حالیہ کچھ برسوں میں سیاسی چلن کے عام مطابق ڈھلتے گئے وہ طور طریقے جو ”سیاسی گروہوں“ نے اپنائے تھے وہ ماہرین کی تنظیمیں بھی اپنا چکی ہیں کچھ تنظیموں کے ساتھ افسوسناک روش بھی دیکھنے کو تواتر سے ملتی رہیں۔ ڈاکٹرز زیادہ تر ہڑتال ”وکلائ“ لڑائی مارکٹائی۔ دھونس‘ دبا¶‘ انجینئرز ذرا کم طاقت کا حامل گروہ ٹھہرا.... جب ہم 65 سالہ ”تاریخ کو کھنگالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ صرف ایک ”طبقہ“ ایسا ہے جس کی کوئی انجمن نہیں۔ ”یعنی عوام“ ”عوام“ نظرانداز کیا گیا طبقہ ہے عوام اپنے مفادات کے تحفظ اور حقوق کے حصول کےلئے جب بھی قدرت موقع فراہم کرتی ہے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں مگر ”عوامی نمائندگی“ کی دعویدار سیاسی جماعتیں بھی اب ایک ”عفریت“ کا روپ دھار چکی ہیں۔ تکلیف دہ چیز یہ ہے کہ ”65 سالوں“ میں عوامی تائید و حمایت سے برسر اقتدار آنے والے اور ان کو منتخب کرنے والے کبھی بھی ایک ”Page“ پر نظر نہیں آئے۔ ”پاکستانی قوم“ بالاست‘ زور آور گروہوں کے مابین گھری ہوئی ہے۔ ”قوم“ بطور ایک گروہ کے نہایت کمتر پوزیشن پر ہے۔ ”قومی قیادت“ سے لیکر گلی محلے کی ”لیڈر شپ“ تک ”ساکور کے ممبران“ کا شکار ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ”عوام“ خود کو ایک ”عوامی انجمن“ میں ڈھال کر ”مفاداتی بنک“ کے آگے سینہ سپر ہو جائیں۔ بارہا دیکھا گیا کہ انفرادی مفادات کے لئے کچھ کم طاقت کے گروہوں اور طبقات کے مفادات کو زک پہنچائی گئی۔ اس وقت پاکستان میں مفادات کی جنگ عروج پر ہے اور اس جنگ میں کروڑوں لوگ مشکل معاشی حالات اور نامساعد معاشرتی بگاڑ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک کو انفرادی کی بجائے اجتماعی جذبے اور سوچ کی ضرورت ہے.... یہ ”ریاستی قوت نافذہ“ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کی بالادستی اور نفاذ کو یقینی بناتے ہوئے اکثریت (عوام الناس) کو بھی مدنظر رکھے مگر افسوس کہ ماضی میں ایسی کوئی بھی سنجیدہ سعی یا کاوش نظر نہیں آتی.... رجحان‘ صلاحیت کے مطابق ماہرین کا چنا¶ اور تقرر سے 90 فیصد مسائل حل ہو سکتے ہیں تو پھر کیوں نہ ہم 100 فیصد مثبت نتائج کے حصول کے لئے ”عوامی نمائندوں“ کا انتخاب سمجھ کر نہ صرف خود باہر نکلیں بلکہ دوسروں کو بھی ”متوقع انتخاب“ کی اہمیت فوائد سے آگاہ کرنے کا فریضہ سنبھال لیں۔ سینکڑوں اداروں سے منسلک ہوں۔ غریبوں کی خدمت اور مدد تو پہلے سے ہی کر رہے ہیں تو پھر اکثریت (عوام) کی یکجائی کے لئے کیوں نہ کام کروں۔ تمام قارئین سول سوسائٹی کے دانشور حضرات‘ حقیقی عوامی رہنما¶ں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں ”عوامی انجمن“ تشکیل دیں۔ ”عوامی انجمن“ کے زیراہتمام حلقہ وائز امیدواروں کا انتخاب کریں اور دیانتدار‘ راست گو اور امیدواروں کو منتخب کریں۔ ”عوام“ اپنی انجمن کے ذریعہ متحد‘ یکسو ہو کر اب اپنی قسمت کی بھاگ دوڑ خود سنبھالیں۔ صرف یکجائی‘ اتحاد ہی اب ہم کو بچا سکتا ہے۔ ”ووٹ صرف پاکستانی کو“۔
حرف آخر:۔
عبوری وزیراعظم کے چنا¶ میں ملک پھر سیاسی الزامات کی زد میں رہا۔ گویہ کٹھن مرحلہ تھا مگر بالآخر طے ہو گیا معزز عدلیہ اور الیکشن کمشن کو چاہئے کہ وہ ایک ”قابل یقین“ لائحہ عمل بنائیں۔ بھروسہ عوامی اعتماد کے بل پر یقینی بنائیں کہ ”نگران“ کوئی ”انی“ نہ مچا دیں۔ نگران بنتے ہی آبائی علاقوں کے دورے نہ ہونے دیں۔ ”نجی رہائش گاہوں کو نجی“ رہنے دیں۔ اخراجات کی ایک حد مقرر فرما دیں۔ ”نگرانوں“ سے اثرانداز ہو سکنے والوں کی ملاقات پر پابندی عائد فرما دیں۔ ”الیکشن کمشن“ کو ”سپریم کورٹ“ کی پرعزم پشت پناہی کی ضرورت ہے۔ اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ ہموار انتخابی عمل اور بروقت انتخاب کو شفاف بنانا موجودہ حالات میں زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ ”الیکشن کمشن“ قوت پکڑے اور اس قوت کو استعمال بھی کرے۔ تقاضائے آئین اقدامات کرے۔ سیاسی تقرریوں کو فوراً منسوخ کرکے ایسے لوگوں کو ان مناصب سے ہٹا کر او ایس ڈی لگا دیں جوکسی بھی طرح انتخابی عمل پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ جیساکہ ”بارہا کالز“ میں لکھ چکی ہوں کہ ”انتخابی قواعد‘ اصلاحات“ پر عملدرآمد کو سو فیصد ممکن بنائیں۔ ایک بااختیار‘ عوامی امنگوں سے ہم آہنگ ”الیکشن کمشن“ ہماری ترجیح اول ہے اس لئے ڈٹ کر آئین کے مطابق چلیں۔ قوم‘ میڈیا سب آپ کے پیچھے حفاظتی دیوار بنائے کھڑے ہیں۔ ”ووٹرز آگاہی پروگرام“ کا آئیڈیا بھی ہمارا ہے اور اس کے تحت ہم کام بھی کر رہے ہیں۔ بس عوام فیصلہ کر لیں کہ ”ووٹ صرف پاکستانی“ کو سیاسی اجارہ داریوں اور بالادستی کے توڑ کے لئے متحد‘ یکجان ہونا ازبس ضروری ہے۔ ”پاکستان زندہ باد“