خالد احمد .... ”نوائے وقت“ کے افق صحافت کا ستارہ

خالد احمد کی وفات سے نظریاتی اخبار ”نوائے وقت“ کے افق صحافت سے ایک اور روشن ستارہ ٹوٹ گیا اور ان کا شمار اس جلیل القدر اخبار کے ان کالم نگاروں میں کیا گیا جنہوں نے زندگی کے آخری ایام تک قلم تھامے رکھا اور اپنے خیالات کا اظہار حاضر دماغی سے کرکے اپنے قارئین کی ذہنی آبیاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کی وفات 9 مارچ 2013ءکو ہوئی۔ ایک دن قبل ان کی شاعری کی نئی کتاب ”نم دیدہ“ کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ کچھ دن پہلے خبر آئی تھی کہ خالد احمد علیل ہو گئے ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔ انہیں دنوں ”نوائے وقت“ میں ان کا کالم ”لمحہ لمحہ“ شریک اشاعت نہ ہوا تو بیرون لاہور سے ان کے پڑھنے والوں کے ٹیلی فون آنے لگے۔ وہ ”نوائے وقت“ کے صف اول کے کالم نگار تھے اور تازہ سیاسی خبروں پر اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کرتے اور بہت کچھ بین السطور لکھ جاتے تھے۔
میں کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے ”نوائے وقت“ کے قارئین کو اپنا عادی بنایا ہوا تھا اور اب انہیں تشویش تھی کہ ”لمحہ لمحہ“ کیوں نہیں چیف رہا۔ 14 مارچ کو ان کا کالم ”مقدس امانت کے مقدس امین پر“ کے عنوان سے اور 15 مارچ کو ”ہاتھوں میں آگئے ہیں“ پکھانے“ لئے ہوئے ”چھپا تو سب نے طمانیت محسوس کی کہ خالد احمد ”نوائے وقت“ کے شجر صحافت سے پیوستہ ہیں اور ان صحافیوں سے مختلف ہیں جن کی صحافتی تربیت جناب مجید نظامی نے کی اور جب کچھ لکھنے کے قابل ہوئے تو نیا آشیانہ تلاش کر لیا اور صحافتی قدروں کی تکذیب میں تاخیر نہ کی اور ان اخبارات میں چلے گئے جن میں ”بکا¶ قلم“ وہ تاثر پیدا نہیں کرتا جو ”نوائے وقت“ کے صفحات پر لکھنے سے پیدا ہو جاتا ہے۔
خالد احمد کا تعلق لکھن¶ کے اس ادبی خاندان سے تھا جس نے خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور جیسی ممتاز اور نامور افسانہ نگار خواتین پیدا کیں۔ ان کے والد محترم کا نام محمد مصطفیٰ خان تھا۔ وہ سنجیدہ شاعری کے لئے ”مداح“ اور ظریفانہ شاعری کے لئے ”احمق“ تخلص استعمال کرتے تھے اور اپنے وطن مالوف کی نسبت سے ”پھپھوندوی“ کہلاتے تھے۔
 خالد احمد 5 جون 1943ءکو پیدا ہوئے تو ان کے والد پھپھوندہ سے لکھن¶ منتقل ہو گئے تھے اور اس وقت کے سیاست میں سرگرم حصہ لیتے تھے۔ تشکیل پاکستان کے بعد بہ خاندان لاہور منتقل ہو گیا اور پاکستان کے ترقی پسند ادیب احمد ندیم قاسمی نے اس خاندان کی سرپرستی کا فریضہ انجام دیا۔ حتیٰ کہ خدیجہ مستور کی شادی اپنے بھانجے ظہیر بابر سے اور ہاجرہ مسرور کی جناب احمد علی خان سے کرا دی۔ جو اخبار ”امروز“ اور ”ڈان“ کے مدیران تھے۔ خالد احمد کی تربیت بھی ادب اور صحافت کے گہوارے میں ہوئی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ واپڈا میں ملازم ہو گئے اور 2003ءمیں پی آر او کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اس تمام عرصے میں انہوں نے مطالعے کا سلسلہ جاری رکھا‘ شاعری میں نام پیدا کیا۔ وہ جدید غزل کے نامور شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ صحافت کے شوق کے پرورش اخبار ”امروز“ میں کی جہاں ان کا کالم ”لمحہ لمحہ“ چھپتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی انہیں اپنے رشتہ داروں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ اس قربت کی وجہ سے خالد احمد کو بھی اکثر لوگ ترقی پسند شاعر شمار کرتے تھے۔ لیکن ان کے باطن میں ایک اسلام پرست انسان موجودہ تھا اور انہوں نے حمد و نعت میں انفرادی زاویہ پیدا کیا۔ ”تشیب“ ان کی پہلی کتاب تھی جس میں تین نعتیہ قصیدے شامل ہیں۔ شاعری کی کتابوں میں ”ہتھیلیوں پر چراغ“ ”پہلی صدا پرندے کی“ ”ایک مٹھی ہوا“ اور آخری مجموعہ ”نم دیدہ“ کے نام سے شائع ہوئے۔ واپڈا سے ریٹائر ہوئے تو خالد احمد کو فکر معاش نے گھیر لیا۔ ہر چند وہ ترقی پسند فکر کے ادیب مشہور تھے اور رسالہ ”فنون“ میں تربیت پائی تھی۔ لیکن جناب مجید نظامی نے ان کی دستگیری کی اور انہیں ”نوائے وقت“ میں اپنا سابقہ کالم ”لمحہ لمحہ“ لکھنے کے لئے بہت اچھے مشاہیرے پر شامل کر لیا اور خالد احمد کی نظریاتی جہت قائم رہی۔ خالد احمد کی اس خوبی کا اعتراف ضروری ہے کہ انہوں نے مجید نظامی صاحب کے اعتماد کو قریباً دس سال تک مجروح نہیں ہونے دیا اور وہ اس اعزاز سے بھی سرفراز ہوئے کہ جب انہیں ”پرائڈ آف پرفارمنس“ کا ایوارڈ دیا گیا تو محترم نظامی صاحب نے خالد احمد کی پذیرائی کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ بلاشبہ خالد احمد نے اپنے خاندان کی وضعداری قائم رکھی۔ لیکن 19 مارچ کو کینسر نے ان کی جان لے لی۔ حق تعالیٰ مغفرت کرے۔ خالد احمد عجب آزاد مرد تھا۔

ای پیپر دی نیشن