شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنہاںتھیں بھارے

ہمارے سیاستدان جب اپنے کسی بیان کی تردید کرتے ہیں تو ہم کچھ اور بدمزہ ہو جاتے ہیں لیکن اللہ جانتا ہے کہ ہمیں ابرارالحق کی تردید اچھی لگی۔ اس خوب روجاٹ کو سرتال نے معزز تر بنا دیا ہے۔ گانا بجانا ”بڑا مجا دے ریا“ تھا کہ عمران خان نے انہیں اپنی یوتھ کا صدر بنا ڈالا پھر سیاست کے کچھ اپنے مزے ہیں۔ سو ان دنوں یہ بڑے مزے میں ہیں۔ کل ان کے تحریک انصاف کے سیکرٹری امور خارجہ منتخب ہونے کا اعلان ہوا۔ ان کے ”کنے کنے جانا اے بلو دے گھر“ والے بلاوے پر سبھی نوجوان بوڑھے اور بچے ان کے پیچھے چل پڑے تھے۔ رہ جانے والے حسرت سے جانے والوں کے نقش قدم دیکھتے رہے۔ ذکر ان کی تردید کا چھڑاہے تو یہ بھی بتادوں کہ وہ تردید کس چیز کی کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ان کے حوالے سے اخبارات میں خبر آئی کہ آئندہ الیکشن میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی کامیابی کی صورت میں وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ اب انہوں نے خالی خولی کہا نہیں بلکہ اس پر ایک مکمل کالم نگار بن گئے ہیں۔ اب ہمیں ان کی گائیکی کی طرح کی خوبصورت نثر بھی پڑھنے کو ملتی رہے گی۔ ہمیں دونوں خبریں اچھی لگیں، پہلی ان کے ملک نہ چھوڑنے کی خبر، دوسری کالم نگار بن جانے کی خبر۔ مجھے یاد ہے کہ جب ریٹائرڈ میجر جنرل احتشام ضمیر کا پہلا اردو کالم ایک اخبار کی زینت بنا تو ہم نے لکھا تھا کہ ایک ریٹائرڈ جرنیل احتشام ضمیر ایک حاضر سروس فلمی اداکارہ ریما خاں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کالم نگاری کے میدان میں آن اترے ہیں۔ اس وقت اداکارہ ریما خاں ایک اخبار میں کالم لکھ رہی تھیں۔ اب ریما خاں اداکاری اور کالم نگاری دونوں کو تیاگ کر پیا دیس جا سدھاری ہیں۔ فلمی زندگی میں ان گنت مرتبہ دلہن بننے کے باوجود حقیقی زندگی میں دلہن بننے کی خواہش کم نہیں ہوتی۔ ہم ان کی ازدواجی زندگی کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں۔ دعا گو ہم ابرار الحق کی سیاسی کامیابی کیلئے بھی ہیں۔ پھر یہ خار زار عشق نہیں، سیاست کا میدان ہے۔ عشق میں کامیابی ہو یا ناکامی، ہم نے دونوں صورتوں میں خانہ خرابی ہی پلے پڑتی دیکھی ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں اور سچ ہی کہہ گئے ہیں....
ناکامی عشق ہو یا کامیابی
دونوں کا حاصل خانہ خرابی
سیاست میں کامیابی کے اجر کی کئی صورتیں ہیں۔ وزارت، سفارت، صدارت پھر یہ لسٹ بڑی لمبی ہے۔ یہاں عشق کے معاملات کی طرح دم رخصت خاموشی اور آنسوﺅں کے کارن آنکھوں میں پھیلتا ہوا کاجل نہیں ہوتا۔ سرکار! دم آخر بھی موسم بڑے رنگ رنگیلے ہیں اور بڑی رونقیں ہوتی ہیں ان ”فقیروں“ کے ڈیرے۔ محترمہ فہمیدہ مرزا سپیکر قومی اسمبلی تشریف لاتی ہیں”باادب باملاحظہ ہوشیار“ ہم نہیں جانتے کہ شاہی ادوار میں کسی ملکہ معظمہ کی آمد پر چوجدار.... یہ آواز بلند کرتے تھے یا نہیں لیکن اس جمہوریت میں قومی اسمبلی کے آخری دن کچھ ایسا ہی شان و شکوہ والا منظر دیکھنے میں آیا۔ وہ ڈھیر ساری شاپنگ کے موڈ میں آئیں اور اپنی رہتی دنیا تک کیلئے کیا کیا کچھ بلا قیمت خرید کر نہیں لے گئیں۔ باوردی شوفر، سیکرٹری، حفاظتی سکواڈ، گاڑی پٹرول، ہم سے یہ سب کچھ لکھا نہیں جا رہا۔ فہرست خاصی لمبی تھی پھر یہ سب کچھ ان کے پاس پہلے بھی وافر تھا لیکن کیا کیا جائے کہ مفت بری میں کچھ لذت سوائی ہوتی ہے۔ ابرار الحق سچ کہہ رہے ہیں”انہیں کیا پڑی پاکستان سے بھاگنے کی“ پھر کون نہیں جانتا کہ پاکستان مراعات یافتہ طبقہ کی جنت ہے تارکین وطن کے دکھ درد شوکت فہمی نے ایک ہی شعر میں جی بھر کے بھر دیئے ہیں....
بس یہ نہیں کہ عرش بریں کے نہیں رہے
ٹوٹے ہوئے ستارے کہیں کے نہیں رہے
محو حیرت ہوں یہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ اپنے آئی پیڈ پر اپنے پڑھنے کےلئے انگلستان گئے ہوئے بچے کی شکل دیکھتا ہوں۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوں، اس سے ڈھیر ساری باتیں کرتا ہوں۔ پرسوں رات وہ مجھے بتا رہا تھا کہ ابو ہمارے ان کے کلچر کا بہت فرق ہے۔ بندہ یہاں کچھ عرصہ کیلئے رہ سکتا ہے لیکن زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ ابو میرے پاس کوئی پاکستانی ڈگری نہیں۔ او لیول، اے لیول، لندن سکول آف لاءسے ایل ایل بی آنرز۔ برطانوی یونیورسٹی آف سوان سی سے کمرشل لاءمیں ایل ایل ایم اور اب چند ماہ میں انشاءاللہ برسٹل یونیورسٹی سے بار ایٹ لاءکی ڈگری بھی۔ یہ سب برطانوی تعلیمی اداروں کی ڈگریاں ہیں۔ یہاں مجھے ایک انگریز بیرسٹر نے آفر کی ہے کہ یہیں ٹک جاﺅ لیکن ابو یہاں ٹکنا بہت مشکل ہے۔ کلچر کا بہت فرق ہے اپنے ملک سے کوئی خیر سکھ کی خبر نہیں آ رہی۔ ہر کوئی مندے کی اطلاع لاتا ہے۔ دہشت گردی، امن عامہ کے مسائل، گیس ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ لیکن میں سوچتا ہوں کہ اپنے ملک کے ”دھکے شکے“ ہی اچھے ہیں۔ گاڑی 800 سی سی مہران بڑی اچھی، جہاں پہنچنا چاہو پہنچا دیتی ہے۔ گھر چند مرلوں کا بھی کافی۔ بس اک چھت چاہئے ہوتی ہے۔ بندہ اپنے ملک میں شہری تو درجہ اول کا ہوتا ہے۔ قطر سے میرا ایک کلاس فیلو دوست ہے۔ اس کے ابو کی وہاں ایک بڑی اچھی لا فرم ہے۔ وہ بھی مجھے خاصے معقول مشاہرے پر وہاں کام کی آفر کر رہے ہیں لیکن ادھر بھی دوسرے درجہ کا شہری بن کر رہنے والا معاملہ ہے۔ میں نے انہیں بھی انکار کر دیا ہے اپنا ملک اپنا ہوتا ہے میں نے کہا مجھے کیا بتاتے ہو۔ مجھے تو گوجرانوالہ چھوڑنا ہی جان جوکھوں کا کام لگتا ہے۔ لاہور گھومنے پھرنے میں بڑے مزے لیکن رات سونے کا مزہ اپنے شہر ہی آتا ہے۔ وہ بلخ بخارے میں کہاں جو چین چھجو کو اپنے چوبارے میں ملتا ہے مجھے ٹاﺅن ڈویلپر اچھے نہیں لگتے۔ یہ سڑکوں پر ون ویلنگ کرتے ہوئے بچوں کے کھیلنے کے سارے میدان ہڑپ کر گئے ہیں پھر ہر شہری کو رہائش مہیا کرنے کے ریاستی فرض کی ادائیگی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی لوگ ہیں۔ اپنی طرز کے انوکھے شاعر ظفر اقبال نے کہا ہے کہ میں ایک چھوٹا سا گھر بنانے میں مصروف ہوں لیکن یہ گھر ایک بندے کے دل کے اک کونے میں ہے۔ اللہ کی زمین پر گھر بنانا ان کا کائیاں ٹاﺅن ڈویلپروں کے باعث کچھ آسان نہیں رہا۔ اب اللہ کے بندے بس کسی بندے کے دل ہی میں گھر کر سکتے ہیں۔ خیر یہ ایک لمبا موضوع ہے۔ لاہور کے معروف ٹاﺅن ڈویلپر عبدالعلیم خاں سے میری کوئی میل ملاقات نہیں۔ میں نے ان کی بات سنی تو پھڑک اٹھا ہوں۔ یہ برادرم کالم نگار توفیق بٹ کو بتا رہے تھے کہ اللہ کا دیا سب کچھ موجود ہے مال منال کی کوئی کمی نہیں۔ اب جی صرف یہ چاہتا ہے کہ ہمارا ملک اتنا بن سنور جائے کہ میری آل اولاد پاکستان میں رہ سکے۔ انہیں باہر نہ بھاگنا پڑے۔ ملک چھوڑنے والوں کو باہر جا کر سب کچھ مل جاتا ہے وطن نہیں ملتا۔ آدمی اپنی مٹی کی خوشبو کیلئے ترستا مرجاتا ہے۔ پھر ایک پردیسی اول و آخر ایک پردیسی ہوتا ہے۔ ”شالا مسافر کوئی نہ تھیوے، ککھ جنہاں تھیں بھارے“۔

ای پیپر دی نیشن