کچھ ماہ قبل جب بلوچستان کے وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے کہا تھا کہ ”ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی“ تو سنجیدہ حلقوں میں ایک کہرام مچ گیا تھا اور کچھ سنجیدہ حلقوں ہی نے اسے لطیفہ قرار دیا تھا۔ قوم کی ”قیادت“ کرنے والے بڑے بڑے سیاستدانوں اور سیاستدانوں کی اولاد نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں براجمان ہونے کےلئے بن پڑھے پڑھائے ”ڈگریاں“ حاصل کر لیں۔ سابق آمر جرنیل پرویز مشرف نے کچھ اور کیا یا نہیں کیا، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ ضرور کیا کہ کئی لوگ جعلی ڈگریوں جیسے اقدامات سے ”ایکسپوز“ ہو گئے۔ پچھلے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ڈگری یعنی بی اے کی ڈگری ہونا ضروری تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں نے واقعی ڈگری ”ہونے“ کو اہمیت اور فوقیت دی گریجویشن کرنے کو نہیں! پچھلے دنوں یہ بھی ایک راز کھلا کہ، کسی یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر کی ڈگری پر بھی جعلی ہونے کا شبہ ہے۔ اللہ بھلا کرے 18 ویں ترمیم پاس کرنے والوں کا کہ وہ جمہوریت کی عزت بچا پائے ہیں کہ نہیں لیکن انہوں نے ڈگریوں کی عزت ضرور بچا لی ہے ورنہ ”ڈگریاں“ بے راہ روی کا شکار ہو کر سیاستدانوں کی ”ر کھیل“ بن گئی تھیں۔ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کہتی ہے کہ گریجوایٹ ہونا ضروری نہیں اب ان پڑھ سے ”ان پاڑھ“ تک اسمبلیوں میں پہنچ سکتے ہیں....
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پہ نہیں آتی
اللہ کرے کہ آنے والے الیکشن میں دفعہ62 اور63 بھی کسی جعلی ازم کے بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ خدا کرے کہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمشن 62 اور 63 جیسی دفعات پر عمل کرانے میں کامیاب ہو جائیں۔سیاستدانوں نے جعلی ڈگریوں کے تناظر میں جس طرح ہائر ایجوکیشن کمشن کو تنگ کیا، ٹھیک اسی طرح اب الیکشن کمشن کو بھی تنگ کرنے کے درپے ہیں۔62 اور 63 کے حوالے سے ہم نے بہت سوچا ہے لیکن نتیجہ یہی نکلا ہے کہ کوئی لشکر اٹھے اور حلقہ یاراں سے لے کر ہر حلقہ¿ انتخاب تک وہ کسوٹی لے کر پھرے۔ جہاں پر کوئی 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتا، وہیں پر احتجاج کرے اور ریٹرننگ افسر سے ہائی کورٹ و سپریم کورٹ و الیکشن کمشن تک درخواست دے کہ، فلاں بندہ سیاست اور کردار کے نام پر دھبہ ہے۔جماعت اسلامی کی تو یاد ہی ہو گا کہ انہوں نے ایک دفعہ اشتہار چھپوائے اور لگائے تھے کہ ”ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ ہوں“ یعنی جس الیکشن میں میاں نواز شریف نے ہیوی منڈیٹ حاصل کیا تھا جماعت اسلامی نے 62 اور 63 کے حق میں تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے....
برہمن کو باتوں کی حسرت رہی
خدا نے بتوں کو نہ گویا کیا
ہاں وہ یاد آیا کہ جس طرح ڈگری، ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو کہ اصلی، اسی طرح کا ایک فیصلہ بھی معزز اور محترم لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سامنے آیا ہے کہ ”داخلہ، داخلہ ہوتا ہے، اصلی ہو کہ نقلی‘ پچھلے دنوں یونیورسٹی آف سرگودھا کے کچھ استادوں نے استادی دکھا کر 62 سے زائد طلبہ کو داخلہ پالیسی اور میرٹ کی خلاف ورزی کر کے داخل کر لیا۔ داخلی انکوائری سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ یونیورسٹی نے انہیں سزا کے طور پر فارغ کر دیا۔ وہ الگ بات ہے کہ سابق سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر اعجاز منیر نے انہیں سزا کے بجائے جزا سے نوازا اور پرنسپل تعینات کر کے دوسرے کالجز میں بھیج دیا۔ اور ساتھ گریڈ بھی بڑھا دیا۔ اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمشن کے بغیر یونیورسٹیوں کا کام نہیں چلنے والا، 18ویں ترمیم سے جہاں بہت کام اچھے بھی ہوئے لیکن ایچ ای سی کا شیرازہ ضرور بکھر گیا۔ ماہرین اس وقت تذبذب کا شکار ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ایچ ای سی مرکز میں جوں کی توں ہے اور اکثریت یہ کہتی ہے کہ صوبائی سطح پر ایچ ای سی کا وجود ضروری ہے۔ ایچ ای سی کا وجود صوبائی سطح پر کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب یہ ہے اور جس پر اکثریت اتفاق بھی کرتی ہے کہ سیکرٹری ایجوکیشن کا مزاج اور تحقیق یونیورسٹیوں کی سطح کی نہیں ہوتی۔ یونیورسٹیاں محض کالج یا سکول نہیں ہوتیں کہ کلاس لگی، گھنٹی بجی اور چھٹی جامعات میں ریسرچ ہوتی ہے، ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے طلبا ہوتے ہیں۔ جامعات کے طلبہ از خود 20 ویں گریڈ تک افسر بھی ہوتے ہیں پھر سیکرٹریٹ کا مزاج ایچ ای سی سا نہیں ہوتا یہاں تو 20 ویں گریڈ والا غیر سائنسی سیکرٹری 22 ویں گریڈ کے وی سی سے بات کرنا پسند ہی نہیں کرتا اور ایک 17 ویں گریڈ کا سیکشن افسر سیکرٹری کی ایما پر وائس چانسلر حضرات کو ٹرخا دیتا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے وی سی حضرات کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں کہ سیکرٹری تعلیم بات سننے کا روا دار نہیں ہوتا۔ پچھلے دنوں ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاءالرحمن نے سندھ حکومت کے صوبائی ایچ ای سی کے اعلان پر سخت تنقید کی ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ اب مرکزی ایچ ای سی اپنا وقار اور انداز18 ویں ترمیم کے بعد اس طرح برقرار نہیں رکھ پائے گا جس طرح کبھی اس کا معمول تھا۔ اس لئے بہتر ہے کہ پنجاب کے پی کے اور بلوچستان بھی اپنے صوبائی ایچ ای سی جلد از جلد بنا لے ورنہ جامعات کا حال پرائمری سکولوں جیسا ہو جائے گا۔
بات چل رہی تھی کہ ”داخلہ، داخلہ ہوتا ہے میرٹ پر ہو یا میرٹ کے بغیر“ جان کی امان پا کر ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ آخر ان طلبہ کا کیا قصور جنہیں پیچھے ہٹا کر اقربا پروری، سیاست، رشوت، اور سفارش سے داخل کر لیا گیا۔ جہاں یو او ایس کا تعلق ہے یہ جلدی سے نمو اور نشوونما پانے والی مثالی یونیورسٹی ہے جہاں داخلے ہمیشہ میرٹ پر ہوئے۔ اگر گڑبڑ کی کوشش کی گئی تو راز کھل گیا اور جامعہ نے اپنی حد تک مجرموں کو سزا بھی فوراً دیدی۔ دیکھئے! جس طرح ”داخلہ داخلہ ہوتا ہے“ اسی طرح اگر کوئی یہ بھی کہہ دے کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو کہ جعلی“ پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جا کر ان یونیورسٹیوں کو پکڑو جنہوں نے ڈگریاں جاری کیں۔ ڈگری لینے والے نے جو بھی کیا، جیسے بھی کیا وہ ہو گیا پھر کام کیسے چلے گا؟ کیا آئندہ کوئی وی سی جعلی داخلوں کی روک تھام کےلئے کام کرے گا؟ کسی سربراہ کے دور میں ڈگری اگر جعلی ہوتی ہے اور پھر کوئی اور آ جاتا ہے، جب اس کے پاس بھی انکوائری جائے گی تو وہ کہے گا کہ میں نے یونیورسٹی کو جگ ہنسائی کےلئے ضرور پیش کرنا ہے پس ڈگری تو جاری ہو گئی لہذا ”مٹی پاﺅ“ کیا ہم آئندہ ”مٹی پاﺅ“ والی صورت حال کو اپنی تعلیمی شکل وصورت بنانا چاہتے ہیں؟
داخلہ کے معاملہ میں آخر اس غریب، بے قصور اور سفارش نہ رکھنے والے کا بھی کچھ کریں جیسے پیچھے ہٹا کر اس کے حق پر قبضہ کر لیا گیا۔ آخر وہ اپنا حق کس سے مانگے؟ جعلی داخلہ ہو کہ جعلی ڈگری، ان زخموں کا علاج نہ کیا جائے تو یہ قوم اور ملک کے ناسور بن جاتے ہیں۔ ڈگریوں کے معاملہ میں تو پارٹی سربراہان ہی کو چاہئے تھا ایسے لوگوں کو پارٹیوں سے نکال دینے چاہئے وہ جمشید دستی ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ لیڈر قوم سے وفا کیا کرے گا جس نے تعلیم اور ڈگری ہی سے وفا نہ کی ہو۔ داخلہ ہو تو تعلیمی اداروں کے سربراہان میرٹ کو دوام بخشیں اور جعلی کام کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں اور ڈگریوں کے معاملہ میں ملوث افراد کو الیکشن کمشن پوری دلیری سے آئندہ کے لئے الیکشن سسٹم سے آﺅٹ کرے۔