الیکشن کمشن نے، جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کو، نگران وزیرِاعظم مقرر کر دیا ہے۔ قبل ازیں صدرِ مملکت۔ نگران وزیرِاعظم مقرر کیا کرتے تھے۔ ہر نگران وزیرِاعظم پر انتخابات میں، دھاندلی کرانے کا الزام لگایا گیا۔ چنانچہ دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے، اتفاق رائے سے، ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن قائم کِیا اور آئین میں ترمیم کرکے نگران وزیرِاعظم مقرر کرنے کا طریقِ کار وضع کر لیا، لیکن وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف اور اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خاں، کسی ایک شخصیت کو نگران وزیرِاعظم بنانے پر اتفاق نہیں کر سکے۔ تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس بھی بے نتیجہ رہے۔ دراصل ہمارے یہاں ایک عرصہ سے، دُشمنی کی سیاست فروغ پا چکی ہے اور دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادتیں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پرانے زمانے کے دشمن قبائل کی طرح۔ پارلیمانی پارٹی میں دونوں فریقوں کے نامزد کردہ اصحاب میں سے کسی ایک پر اتفاق نہیں ہُوا تو آئین کے مطابق نگران وزیرِاعظم کا فیصلہ تو الیکشن کمشن نے ہی کرنا تھا۔ جون 1747ءمیں جب ایران کا بادشاہ نادر شاہ قتل ہُوا تو، افغان قبائل تین دِن تک اپنا بادشاہ منتخب کرنے کے لئے جرگہ میں بحث کرتے رہے، لیکن کسی ایک شخصیت پر اتفاق رائے نہ ہو سکا، اچانک اُس دور کے ایک ولی، سیّد صابر شاہ (جن کا مزار خستہ حالت میں لاہور کے شاہی قلعہ کی شمالی دیوار کے ساتھ ہے) وہاں پہنچ گئے تو اُن سے درخواست کی گئی کہ ”آپ بتائیں کہ ہم کِس شخص کو اپنا بادشاہ منتخب کریں!“۔ سیّد صابر شاہ نے قریبی درخت سے ایک ٹہنی توڑی اور اُسے، نادر شاہ کی فوج کے ایک افسر احمد خان ابدالی کی پگڑی میں سجا دیا اور کہا۔ ”یہ ہے افغانوں کا بادشاہ!“۔ (نادر شاہ جب 1739 ءمیں ہندوستان پر حملہ آور ہُوا تو احمد خان ابدالی افغان قبائل کی کمان کرتے ہوئے، اُس کے ساتھ تھا) سارے افغان قبائل نے احمد خان ابدالی کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا پھر افغانوں کے بادشاہ نے احمد شاہ ابدالی کے نام سے 1773ءتک (26 سال) حکومت کی یعنی تاحیات۔ کسی افغان قبیلے نے اپنے بادشاہ کے خلاف بغاوت نہیں کی۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم سیّد صابر شاہ کی طرح ”ولی“ نہیں ہیں اور نہ ہی الیکشن کمشن کے دوسرے چار ریٹائرڈ جج صاحبان، لیکن آج کے دور کے دو متحارب (سیاسی) قبیلوں اور اُن کے ساتھی (سیاسی) قبیلوں نے متفقہ طور پر، فخرو بھائی اور اُن کے ساتھی ججوں کو، دیانتدار، اور غیر جانبدار قرار دیا اور جب پارلیمانی پارٹی (سیاسی قبائلی سرداروں) میں اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے اپنا اختیار استعمال کر لیا ہے تو اِس پر شور شرابہ کیوں؟۔ اور پھر نگران وزیرِاعظم تاحیات تونہیں، بلکہ صِرف 60 دِن کے لئے ہوں گے۔ دس دس اور گیارہ گیارہ سال تک، فوجی آمروں کو برداشت کِیا جاتا رہا ہے تو 60 دِن کے لئے، تین مرحلوں یا امتحانات سے گُزر کر، نگران وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے والے مہمان وزیرِاعظم پر اعتراض کیوں؟مغلیہ خاندان کے زوال کے آخری دور میں، متحدہ پنجاب پر، سِکھوں کی بارہ مِثلوں (لُوٹ مار کرنے والے، اسلحہ بردار گروہوں) کا قبضہ تھا۔ پھر گوجرانوالہ کی سُکّر چکّیہ مِثل کے سردار رنجیت سِنگھ نے گیارہ مِثلوں کو، ساتھ مِلا کر، یا شکست دے کر، پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کہلایا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 48 سال۔ (1801ءتا1849ئ) تک حکومت کی اور جب تک وہ زندہ رہا، انگریز سرکار پنجاب پر قبضہ نہیں کر سکی۔ 1988ء،1990ءاور 1997ءکے عام انتخابات میں، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی، دو بڑی سیاسی جماعتیں بن کر ابھریں اور میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو قومی سطح کے دو لیڈرز۔ اُن دنوں کہا جاتا تھا کہ پاکستان، دو جماعتی نظام کی طرف آگے بڑھ رہا ہے، لیکن 12اکتوبر کو جب آرمی چیف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو، سیاست اُلٹ پُلٹ ہو گئی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کا خواب چکنا چُور ہو گیا۔ انتخابات میں حِصّہ لینے کے لئے، اڑھائی سو کے قریب سیاسی جماعتوں نے خُود کو، الیکشن کمشن کے پاس رجسٹرکرایا ہے، جنہیں دور حاضر کی۔ ”سیاسی مِثلیں“ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے سابق نگران وزرائے اعظم میں سے، 6اگست 1990ءکو مقرر کئے جانے والے نگران وزیرِاعظم، غلام مصطفےٰ جتوئی (جو 1988ءکے انتخابات میں نواب شاہ کی قومی اسمبلی کی نشست سے ہار گئے تھے) اپنی نگرانی میں کرائے جانے والے،1990ءکے عام انتخابات میں نہ صِرف، نواب شاہ بلکہ سیالکوٹ سے بھی منتخب ہو گئے تھے۔ جتوئی صاحب نے اپنی پسندیدہ خواتین و حضرات کو قیمتی پلاٹ بھی الاٹ کرکے شہرت حاصل کی۔ آئین کے مطابق نگران وزیرِاعظم کو بھی وہی اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو منتخب وزیرِاعظم کو ہوتے ہیں۔ کِیا ہی اچھا ہوکہ، جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو، غلام مصطفےٰ جتوئی (مرحوم) کی طرح اِس طرح کے اختیارات استعمال نہ کریں۔ پنجابی کے پہلے شاعر بابا فرید شکر گنجؒ کہتے ہیں۔ ”فریدا جے توں عقل لطیف، کالے لِکھ نہ لیکھآپنے گریوان میں، سِر نِیواں کر دیکھ یعنی اے فرید! اگر تُو لطیف حقیقتوں سے آگاہ ہے تو، سیاہ تحریریں نہ لِکھ اور سر کو جھُکا کر، اپنے گریبان میں جھانک (اپنے اعمال کا بھی محاسہ کر!) اگر جسٹس (ر) کھوسہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی قومی سیاسی تاریخ میں، اُن کا نام سنہرے حروف سے لِکھا جائے تو وہ کالے لیکھ نہ لِکھیں اور نہ اپنے کسی ساتھی وزیر اور بیورو کریسی کے ارکان کو لِکھنے کا موقع دیں۔ فارسی کا ایک شعر ہے.... ” در حقیقت، مالکِ ہر شے، خُدا استایں اِمانت، چند روزہ، نزد ما است“یعنی ہر چیز کا مالک خُدا ہے اور میرے پاس یہ امانت چند روز کے لئے ہے۔ جسٹس (ر) کھوسوکے پاس نگرانِ وزارتِ عظمیٰ بھی ایک اِمانت ہے ۔ وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو اور صدر جنرل ضیاالحق نے، اپنے اپنے دور میں، کُرسی کے ہتھّے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ ”میری کُرسی بہت مضبوط ہے“۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ، دونوں صاحبان غیر فطری موت سے ہمکنار ہُوئے۔ جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کی بڑی خوبی یہ ہے کہ، اُن کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ وہ کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی ملازمت میں کبھی نہیں رہے۔ اُنہیں اِس حقیقت کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا کہ وہ وزیرِاعظم ہاﺅس میں، 60 دِن تک مہمان رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ ، صاف اور شفاف انتخابات کرانے کے لئے اپنی کابینہ میں صاف سُتھرے اور بے داغ کردار کے حامل لوگ شامل کریں اور اپنی ۔”عزتِ سادات“ بچا کر اچھے مہمانوں کی طرح وزیرِاعظم ہاﺅس سے رُخصت ہوں۔ جی آیاں نُوں۔ مہمان وزیرِاعظم!۔