ڈینگی اور اشیاءخورد و نوش

آج میں دو ایسے ایشوز پر بات کرنا چاہتا ہوں جن کا براہ راست تعلق انسانی جانوں اور صحت کے ساتھ ہے اور وہ ایشوز ہیں پنجاب بالخصوص لاہور میں پنپتا ہوا ڈینگی اور وہ غذا جو مختلف صورتوں میں ہمارے جسموں کے اندر تحلیل ہو رہی ہے۔ یقین کیجئے دونوں ایشوز انسانوں کو موت سے قریب تر کرنے والے ہیں۔
ڈینگی کیا ہے کس آفت اور بلا کو کہتے ہیں تفصیل میں جانے کی اسلئے ضرورت نہیں کیونکہ ہمارا بچہ بچہ اس نام اور اسکی تباہ کاریوں سے بخوبی آگاہ ہے ڈینگی گزشتہ کچھ سالوں کی طرح اس بار بھی سر اٹھانے لگا ہے پنپنے لگا ہے اس من میں قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اس بار حکومت خود ڈینگی کی آمد کا سگنل دے رہی ہے۔ حکومت خاص کے حکومت پنجاب بالخصوص وزیر اعلیٰ پنجاب ڈینگی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار نظر آ رہے ہیں حکومتی نمائندے نمائشی طور پر یا دکھاوے کے طور پر ہی سہی متحرک نظر آنے لگے ہیں میں اپنے علاقے سبزہ زار کی مثال پیش کر سکتا ہوں صاف نظر آتا ہے کہ یہاں کے منتخب نمائندوں کو شائد یقین ہے کہ ڈینگی سبزہ زار پر حملہ نہیں کرے گا اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر یہ بھی سچ ہے کہ حکومتی نمائندوں کی اکثریت بہت جلد حملہ کرنے والے ڈینگی سے بے خبر اور بے فکر ہے ان کا ایسا کوئی کام ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔ پنجاب کے اکثر علاقوں کے عوامی نمائندے اور محکمہ صحت کے افسر و اہلکار سوئے پڑے ہیں۔ اس حوالے سے میں چند امور محکمہ صحت اور سٹی گورنمنٹ کے بڑوں چھوٹوں کے گوش گزار کر رہا ہوں جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر ڈینگی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ڈینگی کو شکست نہیں دی جا سکتی۔
کسی بھی جنگ میں اس وقت تک کامیابی کا تصور نہیں کیا جا سکتا جب تک سوسائٹی کا عام انسان اس جنگ کا حصہ نہ بنے۔ ڈینگی کے خلاف جنگ واکوں‘ مذاکروں‘ سیمیناروں اور بیانات سے نہیں جیتی جا سکتی ڈینگی کو شکست دینے کے لئے عام آدمی کو بھی جنگ کا حصہ بنانا ہو گا اور اس کے لئے ضروری ہے سرکاری اہلکاروں کا گھر گھر وزٹ.... سرکاری ملاموں خاص کر محکمہ صحت کے افسروں اور اہلکاروں کو منتخب نمائندوں کی معیت میں ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا۔ اور انہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
نوائے وقت کے برادرم ندیم بسرا نے خبر دی ہے کہ لاہور میں ناقص اشیاءخورد و نوش مہیا کرنے والی بیالیس سو فیکٹریاں سرگرم ہیں انتظامیہ کی کارروائیاں کاغذوں پر محدود ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چند برس قبل پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام عمل میں لائے جس کا مقصد صاف ستھری اشیاءخوردونوش کی مارکیٹ میں فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔ فوڈ اتھارٹی میں فوڈ سیفٹی افسران کی نا تجربہ کاری کے باعث وزیر اعلیٰ کا وژن پورا نہ ہو سکا اور ہم پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ہوتے ہوئے بھی خوراک کے نام پر زہر کھا اور پی رہے ہیں۔ اور یہ سب کیا دھرا اس بدبخت اور بدبودار مافیا کا ہے جن کے مک مکا کے باعث ہم گند اور زہر کھانے اور پینے پر مجبور ہیں۔ نت نئی بیماریاں جنم لے چکی ہیں ہیپاٹائٹس دل اور کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ اضافہ اموات کی بڑھتی ہوئی شرح کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔آئے دن اخبارات میں پڑھنے کو ملتا ہے کہ سرکاری اہلکاروں نے اتنے سو من مردہ، حرام اور بیمار جانوروں کا گوشت پکڑ کر ٹلف کر دیا اتنے سو لٹر ناقص اور دو نمبر دودھ قبضے میں لے کر ضائع کر دیا گدھے کا گوشت پکڑ لیا گیا ہے جسے ہوٹلوں پر سپلائی ہونا تھا۔ دوستو! پکڑ جانے والا یہ دودھ اور گوشت وہ ہوتا ہے جس پر مک مکاں نہیں ہو پاتا اور اسے روک لیا جاتا ہے میرا یہ دعوی محکمہ صحت و خوراک کے افسروں اور اہلکاروں کے منہ چڑانے کے لئے کافی ہے کہ شہر میں فروخت ہونے والا 90 فیصد دودھ دودھ نہیں زہر ہوتا ہے 80% استعمال ہونے والا گوشت مردہ اور حرام جانوروں کا ہوتا ہے۔ میں جانتا اور مانتا ہوں کہ شہباز شرےف عوام اور غریب دوستی میں اپنی مثال آپ ہیں کیا عوام کو حرام اشیائے خورد و نوش کھلانے والے سزا کے مستحق نہیں؟ ٹھہرئےے فیصلہ جناب شہباز شرےف کو کرنے دیجئے۔

ای پیپر دی نیشن