الطاف حسین صاحب کے ارشاد کیمطابق میں نے GHQمیں مسلمان نوجوان افسروں کا ایک وفد لیکر قائد اعظم کی خدمت میں حاضری دی۔ کہنے کو تو ہم قائد اعظم کو اپنے جذبات سے آگاہ کرنے حاضر ہوئے تھے لیکن گفتگو ساری کی ساری قائد اعظم نے کی۔ آپ نے بتایا کہ انگریز ماہرین ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ انڈین آرمی ناقابل تقسیم ہے لیکن میں نے ان کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ملک کی ہر چیز کو تقسیم کرنا ہوگا اور فوج کو بھی۔ قائد اعظم کی باتوں میں ذرا توقف ملا تو میں نے ہمت کر کے عرض کیا کہ GHQکے مسلمان افسروں کی طرف سے پاکستان کیلئے ہم آپکو اپنے خون کا آخری قطرہ تک پیش کرنے کیلئے حاضر ہوئے ہیں۔ ہم شاید کسی شاباش کے منتظر تھے لیکن قائد اعظم کے یہ الفاظ ہم پر ایک انمٹ نقش چھوڑ گئے:۔ "If you don't do it you will go under" (یعنی اگر تم نے یہ قربانی اس وقت نہ دی تو آپکی نسلیں ہمیشہ کیلئے ہندو غلامی میں بسر کریں گی)
چنانچہ ہمارے وفد کی وجہ سے قائداعظم کو یقین ہو گیا کہ انڈین آرمی کا عام مسلمان عملہ قائد اعظم کے ساتھ ہے اور پاکستان بنانے کیلئے اُنکے حکم پر ہر ممکن جدوجہد میں شرکت کرینگے۔وفد میں شامل چیدہ چیدہ افسروں کے نام راقم کی کتاب وقت کے ساتھ ساتھ صفحہ 42-43پر درج ہیں ان میں سے بعض افسروں نے اپنے تاثرات اِسی کتاب کے پیش لفظ میں قلم بند کیے ہیں ۔اسی دوران دو دلچسپ واقعات سامنے آئے۔ ایک تو عزت اور محبت کا اور ایک نفرت وحقارت کا ۔ پہلا واقعہ یوں ہوا کہ قائد اعظم دہلی کے کناٹ پلیس میں شاپنگ کے بعد اپنی کار کے پاس آئے تو وہاںایک نوجوان کھڑا تھا پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ انڈین آرمی میں کیپٹن ہے اور اخباروں میں قائد اعظم کی تقریریں اور تصویریں دیکھ کر آپکو Blood and Flesh میں دیکھنے کا عشق کی حد تک شوق پیدا ہوا اور آج جب آپکی گرین پیکارڈ کار کھڑی دیکھی تو آپ کا انتظار کرنے لگا۔ قائداعظم نے کہا ینگ مین اپنا نام اور پتہ لکھ کر میرے ڈرائیور کو دے دو میرا سیکریٹری آپ سے رابطہ کر لے گا۔ دوسرے روز قائد اعظم کے ساتھ ڈنر کا دعوت نامہ وصول ہو گیا چنانچہ اگلے ہفتے نوجوان فوجی کیپٹن کو قائداعظم کے ساتھ ڈنر کھانے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔
دوسرا واقعہ اس طر ح پیش آیا کہ الطاف حسین نے مجھے کھانے پر بلایا اور دوران گفتگو بتایا کہ مولانا آزاد کیلئے قائداعظم کا دیا ہوا ’’کانگریس کا Show-Boyـــ‘‘ والا خطاب آج سچ ثابت ہو گیا ہے۔ یعنی جیسے ہی انٹیرم گورنمنٹ کا اعلان ہوا پنڈت نہرو نے مولانا آزاد کو صدارت سے نکال کر کھڈے لائن لگا دیا۔ آل انڈیا کانگریس کی صدارت خود سنبھال کرانٹیرم گورنمنٹ میں پرائم منسٹر بن گیا۔ دوسری طرف مولانا آزاد کوپنجاب کے وزیر اعظم خضر حیات ٹوانہ کے ساتھ نتھی کر دیا اور پنجاب اسمبلی میں ہندو سکھ ممبروں کو خضر حیات کے حوالہ کر کے پنجاب کی تقسیم کو ممکن بنا دیا ہے خضر حیات اور مولانا آزاد دہلی میںاکثر میٹنگ کر تے تھے اور اگر انکی سازش کامیاب ہو گئی تو پنجاب تقسیم ہو جائیگا اور کشمیر بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائیگا۔ اب ان دونوں کو ختم کر دینا ضروری ہو گیا ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ورنہ یہ نیک کام میں خود ہی کر دیتا۔ تم نے تو ابھی شادی بھی نہیں بنائی اگر تم ان دونوں کو ختم کر دو تو تاریخ میں تمہارا نام روشن ہو جائیگا۔ جیسا کہ راقم نے کہا جب سے ہمارے دفتر میںRSSکا رواج ہو ا۔ جب میںباہر نکلتا ہوں تو با ئی سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ ٹوکری میں .45نمبر کا لوڈکیاہوا پستول رکھتا ہوں۔ آجکل باڈی گارڈ وغیرہ رکھنے کا رواج نہیں اسلئے دہلی میں ان دونوں کو مارنا کچھ مشکل کام نہیں مگر سیاسی قتل کا رواج ہو جائے تو قائداعظم کے بنگلہ پر غیر مسلح سیکریٹری اور چوکیدار کے علاوہ کوئی عملہ نہیں ہوتا تو پھر قائد اعظم کی حفاظت کیاآپ کرینگے؟ اور خدا نخواستہ قائد اعظم کے بعد پاکستان کا نام ہی ختم ہو جائیگا۔ اس پر الطاف حسین نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو یہ میری غلطی تھی اسلئے میں معافی چاہتا ہوں۔
یہاں پر ہمارے مضمون میں ایک نہایت بڑا ابہام پیدا ہوتا ہے۔ قائداعظم نے راقم کے وفد میں بیان کیا تھا کہ انہوں نے دوآزاد ملکوں میں مشترکہ فوج قبول کرنے سے صاف صاف انکار کر دیا تھا۔ اور ساتھ ہی دو آزاد ملکوں کی اپنی فوجوں پر انگریزوں کی بالادستی سپریم کمانڈر کی صورت میں قبول نہیں کی تھی ۔ چنانچہ آپنے دونوں آزاد ملکوں پر جو ائنٹ گورنر جنرل کو بھی قبول نہیں کیا تھا بلکہ پاکستان بنتے ہی خود اپنے آپکو پاکستان کا گورنر جنرل پیش کردیا تھا۔ اب پاکستان بننے پر ایک طرف پنڈت نہرو نے بھارت کیلئے حکم دیا کہ بھارتی فوج کی کمانڈ لیول صرف انڈین افسروں کے ہاتھ میں ہو گی۔ جہاں سینئر افسروں کی کسی موضوع پر تجربہ کی کمی محسوس کریں تو بیشک کسی انگریز کو Advisor رکھ لیں۔اسی طرح روز اوّل سے ہی انڈین آرمی کا کمانڈر جنوبی ہندوستان میں رہنے والا جنرل کری آپا (KARIAPA) بنا دیا گیا۔ دوسری طرف پاکستان آرمی میں ہر لیول کے کمانڈر حتیٰ کہ کیپٹن رینک تک بھی انگریز رکھ لیے گئے ۔ پاکستان میںمیری پہلی یونٹ 4فیلڈ رجمنٹ میں انگریز COاور انگریز 2IC اور حتیٰ کہ بیٹری کمانڈر اور ایڈجوٹینٹ بھی انگریز تھے ایڈجوٹینٹ کا نام کیپٹن جان بونس تھا لیکن بے حد بیوقوف ہونیکی وجہ سے ہم اسے جان بوگس کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ پالیسی قائداعظم کی ہمارے وفد کیلئے بریفنگ کے بالکل خلاف تھی اسلئے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پالیسی ہمارے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی تھی اگر قارئین میں سے کسی صاحب کو اس بارے میں کوئی اطلاع ہو تومہربانی کر کے اخبار میں چھاپ دیں۔ یہ بڑی قومی خدمت ہو گی البتہ ہم نے دیکھا کہ انکے بعد صدر ایوب کے دور میں انگریز فوجی کمانڈروں کی بھرمار ہو گئی تھی۔ اسکا عظیم نقصان یہ ہو اکہ پاکستان بنتے ہی کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ سرینگر چھوڑ کر از خود ہی جموں بھاگ گیا تھا ۔ اس وقت قائد اعظم نے پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف کو حکم دیا کہ کشمیر میں سرینگر پر قبضہ کر لیا جائے لیکن ہمارے انگریز C-in-C نے بیان کیا کہ وہ دلی میں سپریم کمانڈر کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے دوسری طرف بھارت میں انڈین C-in-C نے فوراً ہی ایک بٹالین فوجBy Airاُتار کر سرینگر پر قبضہ کر لیا۔ جب ہمارے انگریز C-in-Cنے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا توخان عبدالقیوم خان صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ نے قبائلی لشکر بھیج دیئے تاکہ وہ پنجاب کے راستے سرینگر پر قبضہ کر لیں۔ راقم نے اِن قبائلیوں کو سرینگر جانے کیلئے راولپنڈی GTS کی سرکاری بسیں لیکر دیں اور ہمارے محلہ کی خواتین صبح شام روٹی پکا کر قبائلی مجاہدین کو بھیجتیں۔قبائل سرینگرجانے کیلئے سرشام بارہ مولا پہنچ گئے اورمعمولی جھڑپ کے بعد بارہ مولافتح کرلیااور پھر سرینگر میں بھی داخل ہو گئے لیکن سرینگر میں شیخ عبداللہ کے ساتھیوں نے قبائل کو Welcome کرنے کے بجائے ہماری GTSکی بسیں چھین لیں اور اسطرح کشمیر ہمارے قبضہ میں آتا ہوا ہاتھو ں سے نکل گیا۔ (ختم شد)