بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں ’’محنت، محنت اور محنت‘‘ کا پیغام دیا تھا مگر افسوس ہم اس اصول کو بھول گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری سیاست، حکومت اور صحافت دنیا کے مقابلے میں ابھی تک پسماندہ ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں اُسامہ کے بارے میں جو حالیہ سٹوری شائع ہوئی ہے اسکی درست تصویر کشی نہیں کی جاسکی۔ نیو یارک ٹائمز امریکہ کا آزاد اور طاقتور اخبار ہے جو یہودی لابی کے زیر اثر ہے۔ امریکی مصنفین کے مطابق یہ اخبار امریکی حکومت کو بھی گاہے بگاہے بلیک میل کرتا رہتا ہے۔ سنسنی خیزی کرکے اخبار اور چینل کو مقبول بنانا میڈیا کا سنہری اصول ہے۔ انسان چونکہ ابھی تک بلوغت کے دور میں داخل نہیں ہوا لہذا سنسنی خیز خبروں اور رپورٹوں سے متاثر ہوتا ہے۔ مس گال 2001ء سے 2013ء تک افغانستان اور پاکستان کے لیے نیویارک ٹائمز کی نمائیندہ رپورٹر کے طور پر کام کرتی رہی ہیں اس دوران وہ پاکستانی اشرافیہ کے قریب رہیں۔ اس نے اپنی کتاب کے لیے ایک سو سے زائد سیاستدانوں، سفارتکاروں، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور صحافیوں کے انٹرویوز کئے۔ اکثر امریکی صحافی سی آئی اے کے ایجنٹ بھی ہوتے ہیں۔ مس گال نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نام "The Wrong Enemy: America in Afghanistan 2001-2014" ہے۔ یہ کتاب ابھی زیر اشاعت ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اس کتاب کے اقتباس شائع کردئیے ہیں جس کا ایک مقصد کتاب کا وسیع پیمانے پر تعارف کرانا ہے جبکہ دوسرا مقصد پاک فوج کو دبائو میں رکھنا ہے تاکہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج آبرومندانہ طریقے سے نکال سکے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ پاکستان کا دوست نہیں ہے اس نے ہمیشہ پاکستان سے بے وفائی کی ہے البتہ نیو یارک ٹائمز کی حالیہ رپورٹ کی اشاعت میں امریکی انتظامیہ کا کردار نظر نہیں آتا۔ گال نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ایک پاکستانی آفیسر نے اس کو بتایا کہ امریکہ کے پاس ٹھوس شہادت موجود ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا کو علم تھا کہ اُسامہ پاکستان میں چھپا ہوا ہے اور جنرل پرویز مشرف بھی اس ٹھکانے سے آگاہ تھے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفارتخانے نے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے یاددلایا کہ امریکی اہلکار ریکارڈ پر اعلان کرچکے ہیں کہ انکے پاس ایسی کوئی شہادت نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ پاک فوج کے جرنیل اُسامہ کی پاکستان میں موجودگی سے آگاہ تھے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے نیو یارک ٹائمز رپورٹ کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اخبار میں شائع ہونے والا مواد مصدقہ نہیں ہے اور یہ مفروضات پہلے ہی غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ دریں اثنا امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی ترجمان لورا (Laura) نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے پاس اس بات پر یقین کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ کمان کو اُسامہ کے ٹھکانے کا علم تھا۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو انتباہ کیا تھا کہ پاکستان کے دس جنرلوں نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت نے طالبان کے ذریعے اس منصوبے پر عمل کیا۔ امریکی اداروں کو پاک فوج ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے اور پاک فوج کا ادارہ تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ پاکستان کے عوام پاک فوج کو بہ حیثیت ادارہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث نہیں سمجھتے البتہ عوام جنرل پرویز مشرف پر ذمے داری ضرور عائد کرتے ہیں۔ جنرل مشرف نے بے نظیر بھٹو کو فون پر دھمکی دی تھی کہ ان کی سکیورٹی کا دارومدار ان کے جنرل مشرف کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر ہے۔ یہ فون کال سی آئی اے نے ریکارڈ کی تھی۔ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے ممکنہ قتل کی ذمے داری جنرل مشرف پر عائد کی تھی۔ اگر بے نظیر بھٹو کے جانشین اقتدار کے لیے بی بی کے خون کا سودا نہ کرتے تو جنرل مشرف قتل کے مقدمے سے بچ نہیں سکتے تھے۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جنرل مشرف طالبان کے سلسلے میں ڈبل گیم کھیلتے رہے۔ آئی ایس آئی میں دو خصوصی ڈیسک قائم تھے ایک حامی طالبان کے لیے اور ایک مخالف طالبان کے لیے تھا۔ پاکستانی عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جنرل مشرف نے منافقانہ پالیسی پر عمل کیا جس کی وجہ سے پاکستان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچا۔ آج بھی پاکستان اُسی منافقانہ حکمت عملی کی سزا بھگت رہا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایبٹ آباد میں اُسامہ کے کمپائونڈ سے جو مٹیریل برآمد ہوا اس کے مطابق اُسامہ کے حافظ محمد سعید اور ملا عمر کے ساتھ رابطے تھے۔ حافظ محمد سعید نے پرجوش انداز میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں ان الزامات کی تردید کی ہے اور ثبوت پیش کرنے کا چیلنج دیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اور ان کی اہلیہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مشیر فرح ناز اصفہانی نے مس گال کو پاک فوج کو ایکسپوز کرنے کی ترغیب دی۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ ہرچند کہ مفروضوں اور بدنیت پر مبنی ہے مگر اس رپورٹ نے پاکستانی ریاست پر لگے کاری زخم تازہ کردئیے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ، اور کارگل کے بعد ایبٹ آباد آپریشن بڑا قومی سانحہ تھا۔ خفیہ ایجنسیوں کی ملی بھگت کے شواہد سامنے نہیں آئے البتہ مجرمانہ غفلت اور نااہلی ثابت ہوچکی ہے۔ افسوس پاکستان کے سابق سپہ سالار نے ذمے دار سینئر فوجی افسروں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جو اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ ایک کمزور سپہ سالار تھے۔ افواج پاکستان کا اندرونی احتسابی نظام غیر موثر ہے۔ سینئر جرنیلوں کی کوشش یہی رہی ہے کہ اپنے پیٹی بند بھائیوں کو احتساب سے بچایا جائے اسی مائینڈ سیٹ کے تحت آج بھی جنرل پرویز مشرف کو احتساب سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد حمود الرحمن کمشن قائم ہوا جس کی رپورٹ ہی شائع نہ کی گئی۔ ٹیکس دینے والے عوام سے حقائق کو چھپایا گیا۔ یہ رپورٹ بھارت کے ایک اخبار نے لیک کی۔ پاک فوج کے سینئر جرنیل اگر بابع نظری اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے تو نہ صرف حمود الرحمن کمشن رپورٹ کی اشاعت بلکہ اس رپورٹ کے مطابق سقوط ڈھاکہ کے ذمے دار جرنیلوں کے کڑے احتساب کا مطالبہ کرتے مگر انہوں نے طاقت کے بل پر اس رپورٹ کی اشاعت کو ہی رکوا دیا۔ اسی طرح ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ بھی تاحال سرکاری طور پر شائع نہیں ہوئی جس کی ذمے داری طاقتور ادارے پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس کمشن کے سربراہ جسٹس(ر) جاوید اقبال بھی خاموش ہوکر بیٹھ گئے ہیں جنہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ’’لگ پتہ جائے گا‘‘۔ فوج کے آمر جرنیل سیاسی لیڈروں کو ذاتی اغراض کی خاطر قتل اور جلاوطن بھی کردیتے ہیں مگر جرنیلوں کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا چاہے وہ سنگین قومی جرائم میں ہی ملوث کیوں نہ ہوں۔ صاف اور شفاف احتساب کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ریاست کے قومی ادارے انحطاط پذیر ہیں۔ سیاسی اور عسکری ادارے پے درپے ناکامیوں سے دوچار ہورہے ہیں۔ احتساب کے بغیر ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتا ہے۔ سیاسی اور عسکری اشرافیہ قومی سانحوں کے باوجود اپنی مکروہ ذہنیت تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ کارگل کے سانحے کے بعد بھارت نے کمشن قائم کرکے ذمے داروں کو سزائیں دیں مگر پاکستان کی اشرافیہ نے سردمہری، بے حسی اور بے حمیتی کا مظاہرہ کیا۔ اشرافیہ کے ذہن جامد ہوچکے ہیں۔ قومی سلامتی کے لیے اس زہر قاتل ذہنیت کے خاتمے کے لیے عوامی انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ موقع پرست مفاد پرست اور عوام دشمن عناصر کو نشان عبرت بنا کر پاکستان کا قبلہ درست کیاجاسکے۔
سردمہری سے زمانے کی ہے یخ بستہ حیات
کتنا پُر ہول ہے اس دور میں ذہنوں کا جمود
نہ درد مندی سے تم یہ راہ چلے ورنہ
ہر ایک جا پہ تھی جائے نالہ و فریاد