ریڈیو پاکستان کی نشریات کی نبض شام کو کیوں ڈوبنے لگتی ہے

ریڈیو کالم۔۔۔۔۔۔ اصغر ملک
ریڈیو پاکستان کا دامن ہمیشہ لغویات، پھکڑپن اورذو معنی جملوں سے پاک رہا ہے اور اس پاک سر زمین کو ہر طرح کی آلودہ نشریات سے پاک رکھنے کے لئے قریباً ہر پروگرام میں مستند اساتذہ، تخلیق کاروں، اور علماءکرام کی خدمات سے استفادہ کیا جا رہاہے چاہے وہ تقریریں ہوں، انٹرویوز ہوں ، موسیقی کے آئیٹم ہوں سب تہذیب و ادب کے ترازو سے تول کر نشریات کی نوک پلک سنوار کر ہوائی لہروں کے سپرد کیے جاتے ہےں اور یہ ریڈیو نشریات کا سب سے بڑا اعزاز و کمال ہے پچھلے دنوں ریڈیو پاکستان کی ڈائریکٹر جنرل ثمینہ پرویز لاہور ریڈیو کے د ورے پر آئیں اور دیگر باتوں کے علاوہ ریڈیو پاکستان لاہور کے یاد باغ میں موسم بہار کی آمد کے موقع پر اپنے نام کا پودا لگا کراسے مزید باغ وبہار بنا دیا اور پروگراموں کے حوالے سے سٹاف کو برےف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آج کی اس مقابلے کی فضا میں پروگراموں کو مزید بہتر اور عوامی بنا کر نشر کیا جائے اور ریڈیو لاہور کے سب سے زیادہ کمرشل حاصل کرنے والے مقبول پروگراموں کی نشریات کے دوران جو بجلی کی رو سے خلل پیدا ہوتا ہے اس بارے میں بھی معلومات حاصل کیں تاکہ ان کا فوری ازالہ کیا جا سکے عوامی خطوط اور ٹیلی فون کالز کے ذریعے سامعین کی جو شکایات موصول ہوتی ہیں ان میں اکثر یہ ذکر شامل ہوتا ہے کہ نشریات صاف سنائی نہیں دے رہیں جب کہ چائنہ ریڈیو ، وائس آف امریکہ، جرمنی، جاپان اور انڈیا اور ہمارے ہاں کے اےف ایم FM ریڈیو کی نشریات صاف اور شفاف سنائی دے رہی ہوتی ہیں ریڈیو پاکستان کی نشریات سہ پہر کے بعد کے پروگراموں میں کیوں خلل پیدا ہوتا ہے کیوں صاف سنائی نہیں دیتیں وزارت اطلاعات و نشریات کو اس کا نوٹس لینا چاہئےے اگر یہ سازش ہے تو بے نقاب کی جائے۔ ٹرانسمیٹروں میں خرابی ہے تو جدید مہیا کئے جائیں ورنہ اس قومی ادارے کی ساکھ کو نقصان کا اندیشہ ہے سننے میں آیا ہے کہ عرصہ دراز کے بعد ڈی جی ریڈیو پاکستان ثمینہ پرویز کی کاوشوں سے دو اور تین اپریل 2014ءکو ڈائریکٹر کانفرنس ہو رہی جس میں ان ساری باتوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ پروگراموں کی لسننگ بڑھانے کے لئے نئے آئیڈیا بھی زیر بحث آئیں گے میڈیم ویوز 630کلو ہرٹز کے لئے جدید ٹرانسمیٹروں کے بارے میں وفاقی حکومت پاکستان سے فنڈز کے لئے درخواست بھی کی جائے گی تاکہ پاکستان کے خلاف جو دیگر ممالک کے الیکٹرونک میڈیا بلا جواز زہر افشانی میں مشغول رہتے ہیں ان کا سد باب بھی ہوتا رہے ورنہ انڈین فلموں کی طرح پرائیویٹ اےف ایم FM ریڈیو او دیگر TV چینلز پمرا سائیں سے ہاتھ ملا کر ہاتھ دیکھاتے رہیں گے۔ہمسایہ ملک نے ہمارے ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی نشریات پر قدغن لگا رکھی ہے یہاں چند چینلز کے سربراہوں نے پیسے کے لالچ کی دوڑ میں انڈین چینلزسے نشر ہوئے پرانے پروگرام یہاں سے نشر مکرر کے طور پر اپنے TV چینلز پر دیکھانے شروع کر دئےے ہوئے ہیں تاکہ ہندو کلچر کے فروغ میں کوئی کسرباقی رہ گئی تو اس کو پورا کر دیا جائے اور ہندی باشا امن کی آشا سے کشمیر آزاد اور پانی کے فساد سے ملک کو آزاد کرا لیا جائے یہ سب دیوانے کی بڑھ والی باتیں ہیں یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ان کے عقیدے اور نظرئےے میں کتنا تضاد ہے اس سلسلے میں مزید تھوڑی سی عرض کر دوں کہ ہمارے ہاں نان پروفیشنل کی بنائی ہوئی بدمعاشوں وغیرہ کے ناموں پر فلموں نے ایسے رنگ دیکھائے کہ عوام نے سینما جانا ہی چھوڑ دیا اور آج تک فلمی سٹوڈیوز ویران اور وہاں کے کارکن بچارے پریشان اور نان ونفقع کے لئے دربدر حیران پھرتے دیکھائی دے رہے ہیں اور یہاں کے چند اداکاروں نے انڈین فلموں میں قسمت آزمائی کے لئے دوڑ لگائی لیکن رسوائی کے سوا کوئی چیز ہاتھ نہ آئی اور یہاں آ کر ہندو بنئیے کے تعصب کی داستان سنائی۔ اب ہمارے ہاں بھانڈوں کی سی ڈی بنا کر مختلف TV سے دیکھائی جا رہی ہیں جن میں بہودہ اور لچر گفتگو بے حیائی سے لبریز ناچ کا بازار لگا کر اپنی تہذیب اور لوک ورثے کا حلیہ بگاڑ کر فن کا نام دے رہے ہیں یہ گمنام بھانڈوں کی بے حیائی سے پسپائی کی دلدل میں گم لوگوں کی کارستانی کے قصے ہیں جو یہاں دیکھائے اور سنائے جا رہے ہیں جن کو ہر قسم کی آزادی کی سند دے کر آزاد چھوڑ دیا گیا ہوا ہے کوئی پوچھنے والا نظر نہیں آتا اور یہ سب کچھ ایک نظریاتی مملکت خداداد پاکستان کی سرزمین پر ہو رہا ہے رہی بات ریڈیو پاکستان کی تو یہاں کوئی بڑے سے بڑا آدمی بھی یہاں سے اخلاق سے گرا ہوا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا پنجابی کے ایک نامور کمپیئر سے ایسی غلطی ہوئی تھی جس کو ملازمت سے برخاست کرنے کے علاوہ اس کا سوشل بائیکاٹ بھی کر دیا گیا تھا۔ ہم ڈی جی ریڈیو پاکستان سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ جہاں ٹرانسمیٹروں کی تبدیلی اور جدید مشینری نصب کروانے میں دل چسپی رکھتی ہیںوہاں عرصہ سے مصنوعی سہاروں پر زندہ اسٹوڈیو فرنیچر کو تبدیل کروا دیں تو ان کا نام ریڈیو کی ہسٹری میں سنہری حروف سے زندرہ رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن