اسلام آباد (آئی این پی) قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایگزیکٹو بورڈ نے کروڑوں روپے کے خوردبرد اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے پر سابق سیکرٹری صحت بلوچستان ڈاکٹر شفیع محمد زہری و دیگر، عثمان ٹیکسٹائل ملز کے مالک عمران غنی، ڈپٹی کلکٹر سیلز محکمہ ٹیکس سید ندیم اختر، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سیلز محکمہ ٹیکس نور اللہ سمیجواور نور ٹیکسٹائل ملز کے مالک و پروپرائٹر نور محمد اور محکمہ سیلز ٹیکس کے حکام و افسران کیخلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دیدی، سابق وزیرخزانہ بلوچستان، موجودہ ایم پی اے محمد عاصم کرد گیلو اور بلال قاسم کیخلاف 3 کروڑ 76 لاکھ روپے کی مشتبہ منتقلی سمیت 3 مختلف انکوائریوں، سابق قائمقام چیئرمین اور موجودہ ممبر سی سی پی مسابقتی کمیشن پاکستان ڈاکٹر جوزفین ولسن کے خلاف ذاتی پسند نا پسند اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے تحت غیر قانونی تعیناتیوں، سابق چیئرمین پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل اسلام آباد ڈاکٹر افتخار احمدکیخلاف 200 افراد کو غیرقانونی طور پر بھرتی کرنے کیخلاف 2 شکایات کی تصدیق کی بھی منظوری دی گئی۔ منگل کو چیئرمین نیب قمر زمان چودھری کی زیر صدارت قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں مختلف فیصلے کئے گئے، ایگزیکٹو بورڈ نیاحتساب عدالت میں تین بڑے ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی۔ پہلا ریفرنس عثمان ٹیکسٹائل ملز کے مالک و پروپرائٹر عمران غنی، ڈپٹی کلیکٹر سیلز محکمہ ٹیکس سید ندیم اختر، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سیلز محکمہ ٹیکس نور اللہ سمیجو، عسکری کمرشل بینک کراچی کے اکائونٹ اوپننگ آفیسر محمد عجائب اور سابق ایڈیشنل کلیکٹر سیلز ٹیکس ڈیپارٹمنٹ امتیاز احمد بیگ کے خلاف ہے۔ دوسرا ریفرنس نور ٹیکسٹائل ملز کے مالک و پروپرائٹر نور محمد اور محکمہ سیلز ٹیکس کے حکام و افسران کے خلاف ہیں، تیسرا ریفرنس سابق سیکرٹری صحت بلوچستان ڈاکٹر شفیع محمد زہری، سابق ڈپٹی چیف پلاننگ آفیسر ڈاکٹر امجد انصاری، سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالغفار کیانی اور کنٹریکٹر ڈاکٹر اختر حمید کے خلاف ہے، چودھری گروپ آف انڈسٹریز کے چیف ایگزیکٹو، ڈائریکٹر چوہدری محمد قاسم کے خلاف کیس کے جائزے کیلئے نیب لاہور کو چار ہفتوں کی مہلت دینے کی بھی اجازت دی۔ ایگزیکٹو بورڈ نے ٹویوٹا زرکون موٹرز کوئٹہ کی 4کروڑ روپے رقم کی رضاکارانہ واپسی بھی تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا اور محکمہ پولیس بلوچستان کے پراجیکٹ ڈائریکٹر و دیگر کے خلاف دفعہ 9C این اے 1999ء کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا اور چار ہفتوں میں رپورٹ طلب کی۔