لاہور (سید شعیب الدین سے) محکمہ آرکیالوجی پنجاب نے شاہی قلعہ، حضوری باغ اور شاہی حمام والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کو منتقل ہونے کے 6 ماہ بعد بھی شاہی قلعہ اور حضوری باغ کے تاریخی حصوں کو والڈ سٹی اتھارٹی کے حوالے نہیں کیا۔ بلکہ ان جگہوں پر اپنی رہائشگاہیں، دفاتر، سٹور روم قائم رکھی ہوئی ہیں۔ والڈ سٹی اتھارٹی کی درخواستوں کے باوجود لاہور قلعہ مکمل طور پر اس کے حوالے نہیں کیا جا رہا۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر میں شاہی قلعہ، شاہی حمام اور حضوری باغ کو محکمہ آرکیالوجی سے لیکر والڈ سٹی اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ مگر آج بھی مغلیہ دور سے اپنی اصل حالت میں باقی رہ جانے والے لاہور کے واحد دروازے روشناتی دروازے میں آرکیالوجی کے دو ڈپٹی ڈائریکٹر افسران کی رہائشگاہیں ہیں۔ شاہی قلعہ کا میوزیم، گیلریز، لائبریری، سٹور روم بدستور محکمہ آرکیالوجی کے پاس ہے۔ تاریخی برٹش جیل بھی والڈ سٹی اتھارٹی کے حوالے نہیں کی گئی۔ کھڑک سنگھ کی حویلی میں بھی رہائشگاہیں قائم ہیں۔ قلعہ کے ملازمین کی 50 کواٹروں پر مشتمل کالونی بھی قلعہ کے اندر ہے۔ جس کی وجہ سے گاڑیوں کی آمدورفت 24 گھنٹے جاری رہتی ہے اور محکمہ آرکیالوجی کے ملازمین اور ان کے بچے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں قلعہ کے اندر دوڑاتے پھرتے ہیں۔ پوری دنی میں شاہی قلعہ جیسی تاریخی عمارتوں میں رہائشگاہیں نہیں ہوتیں اور نہ کوئی کالونی آباد کی جاتی ہے۔ مگر یہاں ملازمین کی مکمل کالونی قلعہ کے اندر آباد ہے۔ شاہی قلعہ لاہور وہ تاریخی عمارت ہے جس کے اندر یادگار تاریخی عمارات کا درجہ رکھنے والی 21 عمارتیں ہیں اور آج بھی اچھی حالت میں ہیں اگر مناسب دیکھ بھال کی جائے تو یہ تاریخی ورثہ بچایا جا سکتا ہے۔ شاہی قلعہ لاہور محمود غزنوی کے مقرر کردہ لاہور کے حاکم ایاز کے دور میں مٹی کا قلعہ تھا، جسے مغلوں نے موجودہ شکل دی۔ اس قلعہ کی تاریخ قبل از مسیح تک پھیلی ہوئی ہے۔ عالمگیر گیٹ میں ایک روایت کے مطابق ’’بو کا مندر‘‘ بھی تھا۔ شاہی قلعہ میں سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی میڈم بمبہ کی بنائی سکھ گیلری بھی ہے۔ شاہی قلعہ میں دنیا کی سب سے طویل 475 میٹر طویل ’’پکچر وال‘‘ بھی ہے۔ والڈ سٹی اتھارٹی نے شاہی قلعہ کو اصل حالت میں محفوظ رکھنے کیلئے شیشہ کاری، آئینہ کاری، ماربل سٹون، موزبک ٹائیلز کی مدد سے قلعہ میں خراب ہو جانے والے کام درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ قلعہ پر 7500 LEP لائٹس لگائی جا رہی ہیں۔ یہ لائٹس قلعہ کے ساتھ عالمگیری گیٹ، حضوری باغ اور بادشاہی مسجد کو بھی روشن کریں گی۔ یہ کام 17 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہو گا۔ بجلی جانے کی صورت میں ایمرجنسی کیلئے جنریٹرز بھی نصب کئے جائیں گے۔