استحکام مدارس وپاکستان


3اپریل کو وفاق المدارس العربیہ کے تحت کل پاکستان ’’استحکام مدارس وپاکستان کانفرنس ‘‘ لاہور میں ہو رہی ہے اس لیے ضروری سمجھا کہ مدارس کی اہمیت پہ کچھ روشنی ڈالی جائے۔بعض لوگ معاشرے میںمدارس کی افادیت کا سرے سے انکار کرتے ہیں ۔ان میں بعض حضرات تہذیبِ جدیدکے مذہب بیزار اورمادہ پرست نظامِ تعلیم کے زیر اثر اس طرح کی بیمار اور مذموم ذہنیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ مدارس کو ان نوع بہ نوع اور ہمہ اقسام تحریکوں وتنظیموں کے بیچ وہی حیثیت حاصل ہے جو سارے نظامِ فلکی میں کواکب وسیّارات کے مقابل سورج کو ہے کہ ان تمام کی ساری رونق، چمک دمک اور قوت کا اصل منبع اور سرچشمہ یہی سورج ہے، آپ آزادیِ ہند کے بعد کی اصلاحی یا رفاہی کسی بھی تحریک کے بنیادی ڈھانچہ اور اسکے ابتدائی مراحل کا جائزہ لیجیے، اس کا آخری سرا کہیں نہ کہیں انھیں مدارس سے مربوط نظر آئے گا، اس کی زمام اور باگ انھیں مدارس کے فارغ التحصیل علماء کے ہاتھوں میں ہوگی، یا اس تحریک کے مختلف ادوار میں اس کی ترقی وترویج اور تقویت کے یہی باعث نظر آئیں گے، بعض لوگوں کا یہ مطالبہ کہ مدارس کے موجودہ نصابِ تعلیم کے ڈھانچہ کو یکسر بدل دیا جائے اور اسکی جگہ ایک ایسا نیا نصاب رائج کیا جائے اس سلسلے میں وفاق المدارس کی انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے خصوصی طور پر قاری حنیف جالند ھری کہ انھوں نے ایک ایسا نصاب تشکیل دیا ہے جو ان مدارس کے فارغین کی معاشی کفالت کا ضامن ہے۔آج سے ساٹھ سال قبل کا درس نظامی کا نقشہ موجودہ نصاب سے ملا کر دیکھیے، موجودہ نقشہ اس سے یکسر مختلف نظر آئیگا۔مدارس کا موجودہ نصابِ تعلیم حذف واضافہ تغیر وتبدل کے مختلف ادوار ومراحل سے گذر کر موجودہ حالت میں آیا ہے، یہ مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ علمی وتعلیمی تاریخ کا نچوڑ ہے، اس نصابِ تعلیم میں مختلف وقتوں میں تغیرات ہوتے رہے ہیں اور مختلف اثرات واحوال کے ماتحت اس میں ترمیم وتنسیخ کا عمل جاری رہا ہے، آخر میں جس سلسلہ درس اورنصابِ تعلیم کی قسمت میں جہانگیری اوردوام وبقا لکھا تھا، جس کا سکہ ہندوستان سے لیکر افغانستان وایران تک رہا، اسکے نامور بانی ’’ملا نظام الدین سہالوی‘‘رہے ہیں، جن کا نصاب تعلیم خفیف حذف وترمیم کیساتھ آج تک مدارس میں رائج ہے۔جس طرح ایک انسان اپنی زندگی کی بقا کیلئے خوراک اور پوشاک کو ضروری خیال کرتا ہے، اسی طرح ایک حقیقی مسلمان اپنی اسلامی شناخت، تہذیبی خصوصیات اور معاشرتی امتیازات سے وابستگی اور اپنے ملی وجود کی حفاظت کو اس سے کہیں بڑھ کر اہمیت دیتا ہے، وہ کسی دام پر اپنے ملی تشخص او راپنے امتیازات وشعائر سے دستبردارنہیں ہوسکتا، آج ہمارا دشمن ہمارے ملی وجود اور تہذیبی خصوصیات کو چن چن کر ختم کرنے پر تلا ہوا ہے، اگر آج اسلام اپنی تمام خصوصیات وامتیازات کے ساتھ نظر آرہا ہے، تو وہ انھیں مدارسِ عربیہ کے زیر احسان، شہر شہر ، گلی گلی، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی جو مساجد آباد نظر آرہی ہیں، مختلف تحریکوں کی شکل میں مسلمانوں کی اخلاقی واعتمادی اور معاشی اصلاح کا جو جال ہرسمت بچھا ہوا ہے، یا کسی بھی جگہ دین کا شعلہ یا اسکی تھوڑی سی رمق اور چنگاری سلگتی ہوئی نظر آرہی ہے وہ انھیں مدارس کا فیضِ اثر ہے،اگر ان مدارس کا وجود نہ ہوتا تو آج ہم موجود ہوتے؛ لیکن بحیثیت مسلم نہیں؛بلکہ ان حیوان نما انسان کے ان تمام درندہ صفت خصوصیات کے ساتھ۔مدارس کی اہمیت وضرورت اور مسلم معاشرے پر انکے احسانِ عظیم کا تذکرہ کرتے ہوئے مدارس جہاں بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، ان کا سنبھالنا اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے، اگر ان عربی مدرسوں کا کوئی دوسراہ فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں، اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ کچھ اور اونچا ہوتا ہے اور اسکی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے، اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے، غور کی نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دیگی‘‘یہ مدارس معاشرے کو کیا دے رہے ہیں؟:یہ ایسی واضح اور روشن حقیقت ہے کہ جس کا معاشرے کے حقیقی احوال سے ناواقفیت یا ایسا شخص ہی منکر ہوسکتا ہے جس نے جان بوجھ کر ان احوال سے آگہی کے باوجود اس سے آنکھیں موند لینے کی ٹھان لی ہو کہ دین کا بقاء وتحفظ، اسلامی اقدار وروایات کی پاس وحرمت، مسلمانوں کی اپنی شریعت کے ساتھ سچی وابستگی وعقیدت اور پورے معاشرے کے اصلاح ودرستگی کا اگر کوئی کام انجام دے رہے ہیں تو یہی مدارس ہیں۔لیکن ان مدارس میں طلبا ء کی تربیت کا فقدان ہے انھیں جدید علوم کیساتھ ساتھ بچوں کو صحافت کی تعلیم بھی دینی چاہیے اپنے مدارس کے میگزین میں بچوں کے مضامین شائع کر کے انکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اس کا مدارس میں شدید فقدان ہے لیکن اب ایک ایسی تنظیم وجود میں آئی ہے جو طلباء کی تربیت کرتے ہیں ضیاء اللہ محسن نے تین سال قبل’’ بزم اسلام ‘‘کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس میں گزشتہ روز مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا اس تنظیم کی کارکرگی دیکھ کر میں حیران رہ گیا سالانہ تقریب بزم اسلام پاکستان 2016ء سے مفتی پروفیسر عبدالرحمٰن کوثر مدنی نے خطاب کے دوران کہا ادیب لوگ قوم کا دماغ اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں،کسی ایک ذہن میں پیدا ہونیوالا خیال قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے،اگر یہ خیال مثبت سوچ پر مبنی ہو،تو ذریعہ نجات بھی بن سکتا ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوے بزم اسلام پاکستان کے نگران اعلی آصف مجید نے کہا کہ ادیب کے اندر مثبت سوچ اسکی اعلی نشانی اور پہچان ہوتی ہے۔مولانا مجیب الرحمان انقلابی نے کہا کہ بچوں کا ادب میں ہمیں اپنے بڑوں سے راہنمائی لیتے ہوئے تربیتی عنصر کو نمایاں رکھنا چاہیے۔تقریب میں ادیبوں کی حوصلہ افزائی کیلئے دئیے گئے نشان ادب ایوارڈ ز ،اسناد اور انعامات پر خواجہ مظہر نے کہا کہ نشان ادب ایوارڈز کا اجراء ایک اچھا اقدام ہے، اسے جاری رہنا چاہیے ۔ معروف ادیب نذیر انبالوی نے اہل قلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ادیب معاشرے کا آئینہ دار ہے،کانفرنس سے عبدالروف نفیسی ، عامر مجید، ندیم اختر، پروفیسر اسلم بیگ،مفتی ریاض جمیل ،نے بھی خطاب کیا لیکن سب نے ایک ہی بات کہی کہ طلباء کی رہنمائی کر کے انھیں لکھنے پڑھنے کا عادی بنانا چاہیے قاری حنیف جالندھری سے گزارش ہے کہ وہ تمام مدارس میں ایسی سرگرمیاں جاری کرنے احکامات صادر فرمائیں ۔

ای پیپر دی نیشن