’’دہشت گردی کیخلاف سکیورٹی کمپنیوں کی تنظیم ِ نو‘‘

Mar 25, 2016

کرنل (ر) زیڈ ۔آئی۔فرخ....نئے راستے

جنگی حکمت ِ عملی اور سرحدوں پر برسرپیکار فوجوں کی جنگی چالوں کا مطمح نظریہ ہوتا ہے کہ دشمن کیلئے ہر وقت بے یقینی کی صورت پیدا کی جائے او ر یہی کیفیت اپنے لوگوں کے قریب نہ آنے دی جائے۔ دہشت گردی کی جنگ میں چونکہ دشمن سامنے نہیں ہوتا اور اپنے جیسا یا اپنوں سے ہی ہوتا ہے لہٰذابے یقینی کی کیفیت سے بچنے کیلئے پوری قوم کو سپاہی بن کر میدان میں اترنا پڑتا ہے۔جنگ جیتنے کیلئے فورسز تلوار اور سوسائٹی کو اپنے آپ کو ڈھال ثابت کرنا پڑتا ہے۔جب تک سوسائٹی حکومتی اداروں کے ساتھ ملکر اپنی گلیاں اور زمین دہشت گردوں پر بند نہ کردے، دہشت گردوں کے ہاتھ سے پہل(Initiative)نہیں چھینا جاسکتا اور جب تکInitiativeنہ چھینا جائے، دہشت گردوں کی کمر تو توڑی جاسکتی ہے مگر دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں کی جاسکتی۔میں اس موضوع پر اکثر لکھتا رہا اور 2011؁ء میں اپنی کتاب انقلابِ پاکستان میں واضح طور پر دہشت گردی کو اس صدی کی جنگوں کا اہم حصّہ اور مربوط سوسائٹی کو اس کا توڑثابت کرنے کی کوشش کی۔آج جبکہ دہشت گردی یورپ کی طرف بھی پھیل رہی ہے ہمارے خطے کا مستقبل دیکھنا زیادہ مشکل نہیں۔بہتر ہے کہ ہم آنیوالے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے آج ہی اپنی سوسائٹی کو لمبے عرصے کیلئے مضبوط بنیادوں پر تیار کرلیں۔ سوسائٹی کے ہر جزو کو اس کی اصل صلاحیت کے مطابق قومی سکیورٹی سے منسلک کریں۔کیونکہ سکیورٹی کے معاملے میں خود فریبی بہت زیادہ نقصا ن کا سبب بنتی ہے۔بہت سارے ادارے اور گروپس اس کارخیر کیلئے فعال کئے جا سکتے ہیں مگر آج ہم صرف پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کو زیر بحث لائینگے ۔
ہمارے ملک میں یہ کاروبار 1984؁ء میں متعارف ہوا۔چونکہ اسوقت عام طور پر امن تھا لہٰذا اسکی افادیت صرف’ چوکیدار ے‘ اور’ شب شبا‘ تک رہی۔کسی بھی با قاعدہ قانون کے بغیر یہ کام کافی پھیلتا گیا اور اس میں کئی ایک قباحتیں بھی نمودار ہوئیں۔ حکومت نے 2002؁ء میں پہلی بار پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیز ریگولیشن اینڈ کنٹرول آرڈیننس جاری کیا جو 2004؁ء میں ایکٹ بن گیا اور اس پر رولز2003؁ء میں لائے گئے۔انتہائی قابل غور بات یہ ہے کہ جس وقت پچھلے 18سال کے مشاہدے کی بنیاد پر قانون لایاگیاعین اسوقت حالات پچھلے اٹھارہ سالوں سے بالکل مختلف ہوگئے اور 14سال سے بھر پور دہشت گردی کے ہو رہے۔حالات پرقابو پانے کیلئے نئی فورسز کھڑی کی گئیں ،نئے قوانین پاس ہوئے۔نئے s SOPآئے مگر اس فورس کی استعدادِ کار بڑھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔حالانکہ اسے پولیس کی مضبوط سیکنڈ لائین فورس اور ملک کے کونے کونے سے انفارمیشن حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بنایا جاسکتا تھا۔
اصولی طور پر تو ریاست کے علاوہ کسی کے پاس ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں مگر سکیورٹی کمپنیوں کا وجود اب پوری دنیا میں تسلیم کر لیا گیا ہے۔ صرف امریکہ میں اسوقت 3545سکیورٹی کمپنیاں ، چھ لاکھ اڑتیس ہزار چھ سو ساٹھ افراد کے ساتھ 350بلین ڈالر سالانہ کاکاروبار کررہی ہیں۔وہ ایک عام محافظ سے لیکر دوسرے براعظموں تک اپنی آرمی کے شانہ بشانہ امدادی کردار اداکررہی ہیں۔ہمارے بیرونی ملکوں میں اس طرح کے عزائم نہ سہی ،مگر اپنے ملک میں تو تربیت یافتہ دہشت گردوں کیخلاف ہم اپنی سکیورٹی کمپنیوں کو بہتر تیار کر سکتے ہیں۔آئیں دیکھتے ہیں کہ حکومت ،کمپنیاں اور عوام کیا حصّہ ڈال سکتے ہیں۔
1۔حکومت۔تمام متعلقہ قوانین کو موجودہ اور آئندہ کے چیلنجز کے تقاضوں کیساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔انہیں قابل عمل اور شفاف بنانے کیلئے تجربہ کار سٹیک ہولڈرز کی رائے کو بھی شامل کیا جائے۔چند اہم نقاط جن پر حکومت کو غور کرنا چاہیے:۔
ا۔سکیورٹی کمپنیوں کے ٹاسک کو غیر مہم طریقے سے مرتب کیا جائے اور استطاعت ِکار کے مطابق ان کی تین کیٹیگری بنادی جائیں۔
کیٹیگری (A) Combat Security۔جن کے پاس سوٖفیصد سابقہ فوجی SSG/اور اچھے ہتھیار ہوں۔حساس مقامات پر تعینات لڑنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہوں۔
کیٹیگری(B) Self and Local Protection۔ان میں کم ازکم 50فیصد سولجر اور باقی ٹرینڈ سویلین ہوں۔یہ پمپ ایکشن /7MM/ پسٹل کے ساتھ پروٹیکشن ڈیوٹی کریں۔
کیٹیگری(C) Watchman Security۔جو بغیر ہتھیار کے واچ مین کا رول سنبھالیں۔تینوں کیلئے درجہ بدرجہ ٹریننگ لازم ہو۔
ب۔ سکیورٹی میں ٹریننگ اور Verification ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔جن کی صلاحیت صرف اور صرف حکومت کے پاس ہے۔ 2009؁ء میں گارڈوں کو ایلیٹ سکول میں دو ہفتے کی ٹریننگ پر بھیجا جاتا تھا جس پر سکیورٹی کمپنی کے 8/10ہزار فی گارڈ خرچ آتے تھے۔ ٹریننگ کے فوراًبعد یہ لوگ اسی ٹریننگ کے بل بوتے پر کمپنی چھوڑکر کسی کے نجی گارڈ بن جاتے ۔ غرض ایک سال کے اندر اندر ایلیٹ والوں نے بھی مزید گارڈ لینے سے معذرت کرلی اور کسی کمپنی میں بھی وہاں کا ٹرینڈ گارڈ دکھائی نہ دیا۔اسکے بعد سے سابقہ فوجی کے سوا باقی زیادہ تر ٹریننگ خود فریبی ہی ہے۔قابلِ عمل حل یہ ہے کہ فوج ،ایف سی، پولیس کے سابق ملازمین کو ٹرینڈ سمجھاجائے اور سویلین گارڈ کی تربیت کا ذمہ حکومت اٹھائے۔ ٹیوٹا کا ایک سکیورٹی ونگ بنایا جائے جس میں تمام خواہشمند نوجوان بھرتی ہو کر ٹریننگ حاصل کریں اور انکی Verificationبھی ہوجائے۔گویا اسے حکومت سے سرٹیفکیٹ مل جائیگا جن کی بنیادپر وہ سکیورٹی کمپنی یا کسی اورادارے میں ملازمت اختیار کرسکے گا۔یہ معمولی اخراجات پر ملازمت کیلئے ہنر اور سکیورٹی دونوں کا حصول ہے۔
ج۔حکومت کو ان کمپنیوں سے واجب الادا ٹیکس وغیرہ پر بھی نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ اسوقت ہر گارڈ پر ہر مہینے کمپنی کو40فیصد ادا کرنے پڑتے ہیں (16فیصدGST 8+فیصد7+WHفیصد سوشل سکیورٹی 6+فیصد 3+EOBIفیصد انشورنس) جسکا بالآخر بوجھ صارف پر پڑتا ہے۔چونکہ دوسری طرف نجی گارڈوں پر پابندی ہے نہ ٹیکس،لہٰذا سکیورٹی کمپنیاںجو ہتھیار بندوں پر حکومتی کنٹرول کا وسیلہ تھیں دم توڑ رہی ہیں۔ اوربغیر ریکارڈ کے ہتھیار وں اور نجی ہتھیاربندوں کا پھیلاؤ بہت بڑھ رہا ہے جو آگے چل کر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
د۔حکومتی لاء اینڈ آرڈر فورسز کی ناکامی یا کمیابی پر سکیورٹی کمپنیوں کا کاروبار چلتا ہے مگر اب انہی فورسز نے انہی بنیادوں پر یہ کاروبار خود شروع کررکھا ہے۔ یعنی پولیس، فوجی فاونڈیشن،AWT اورFC وغیرہ نے سکیورٹی کمپنیاں بنالی ہیں۔ اخلاقی جواز کمزور ہونے کے علاوہ انکی ناکا میوں میں ان اداروں کا نام بھی آتا ہے جو کسی طرح بھی اچھا نہ ہے۔فورسز کا جوان سکیورٹی کمپنیوں میںآکر وہ نہیں رہتا جو اپنے سروس قوانین کے تحت کام کرتے ہوئے ہوتا ہے۔اس پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
2۔سکیورٹی کمپنیاں۔اب سکیورٹی کے کاروبار کے پروفیشنل تقاضے بہت بڑھ چکے ہیں لہٰذا کمپنیوں کو بہتر نتائج پیدا کرنے ہونگے جو گارڈ کی بہتر سلیکشن ،بہتر ماحول اور بہتر مراعات کے ذریعے ممکن ہے۔ کمپنیوں کو اپنے اندر Regimentation پیدا کرنی ہوگی ۔
3۔عوام۔گارڈ سے اس کی ڈیوٹی سے ہٹ کر کسی کام کی توقع نہیں کرنی چاہیے اور بہتر روّیہ سے پیش آنا چاہیے۔ اگر اپنی عزت ، جان ومال کے محافظ کو واجبی سی عزت دے دی جائے تو کبھی رائیگاں نہیں جائیگی۔
ہمارے ہاں روائتاًسروسز کی قدر نہیں کی جاتی اور یہ سروس بھی شروع سے ہی اس روّیے کی نذر ہوگئی۔اب ہمیں نئے حالات کے مطابق کمپنیوں کی نئے خطوط پر تنظیم نو کرنی ہے۔حکومت عملیت پسندی اور تدبر کو بروئے کار لاکر معاشرے کو دہشت گردی کے خلاف ایک موثر فورس مہیا کرسکتی ہے۔ انہیں ’’پہلی ضرورت اور آخر ی ترجیح ‘‘کے مدار سے نکالنا ہوگا۔

مزیدخبریں