اس وقت رینجرز NAB اور ایف آئی اے جب سندھ کا رخ کرنے لگتی ہے اور کرپٹ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے تو قائم علی شاہ صاحب ناراض ہوتے ہیں، زرداری صاحب کو بھی غصہ آجاتا ہے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کا تذکرہ ہو جاتا ہے لیکن جب مک مکا ہو جاتا ہے تو رخ کسی اور طرف موڑ لیتے ہیں۔
جب سندھ کے سیاستدان واویلا کرتے ہیں کہ پنجاب کیطرف متذکرہ بالا اداروں کا رخ کیوں نہیں موڑا جاتا اور انکے پریشر پر جوڈیشری کے ججز پنجاب اور پنجاب کے حکمرانوں کیخلاف کیسز کی لسٹ مانگ لیتے ہیں اور متذکرہ بالا ادارے پنجاب اور مرکز کے حکمرانوں کیخلاف لسٹ 28 آدمیوں کی پیش کر دیتے ہیں اور کچھ ہلچل بھی ہونے لگتی ہے، اورنج ٹرین، میٹرو بس اور نندی پور بجلی گھر کا ذکر آنے لگتا ہے تو حمزہ شریف‘ شہباز شریف چیں بجیں ہونے لگتے ہیں۔ مرکز سے بھی ان اداروں کیخلاف آواز کی باز گشت سنائی دینے لگتی ہے۔ ان اداروں کے اوپر کوئی اور ادارہ بنا کر ان پر سخت کنٹرول کی باتیں کی جاتی ہیں۔ غرضیکہ حکمرانوں کو خوف لاحق ہونے لگتا ہے تو توجہ ہٹائو کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے، کبھی لڑکوں سے زیادتی کے مقدمات کو ہوا دی جاتی ہے۔ کبھی پتنگ بازی کیخلاف جنگ کی خبریں شروع ہو جاتی ہیں۔ کبھی کرکٹ بخار شروع کرا دیا جاتا ہے کبھی پرویز مشرف کے کیس کو ہوا دی جاتی ہے۔ کبھی M.Q.M کا شوشہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ M.Q.Mکا معاملہ BBC نے شروع کیا تھا را کی فنڈنگ، الطاف حسین کا را کیساتھ تعلق اور انکا ایجنٹ ہونا، انور نامی شخص کا بھارتی ہو کر الطاف حسین کیساتھ رہنا اور بھارتی فنڈ مہیا کرنا، BBC نے شروع کیا تھا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے منی لانڈرنگ اور قتل کا کیس الطاف حسین کیخلاف شروع کیا تھا۔ چونکہ الطاف حسین بھارتی ایجنٹ ہے، برطانیہ‘ امریکہ سی آئی اے بھی اس کو استعمال کرتی ہے، اسلئے BBC بھی الطاف حسین کے الزامات اور ’’را‘‘ سے فنڈنگ ہونے اور منی لانڈرنگ اور قتل کی تفتیش میں خاموش ہوگئی ہے۔ پاکستان حکومت بھی تعجب ہے حالیہ M.Q.M کے منحرف لیڈروں سے چودھری نثار دستاویزی ثبوت مانگ رہے ہیں، الطاف حسین کیخلاف قتل کی FIR کئی سالوں کے بعد پاکستان میں درج ہو رہی ہے جبکہ ہائی کورٹ کے فیصلوں کے مطابق چند گھنٹے کی اگر FiR میں تاخیر ہو تو ملزم بری ہو جاتے ہیں اور سالوں کے بعد FiR درج کرنے کے ملزم کو کیسے سزا ہو سکتی ہے۔ مصطفیٰ کمال، سرفراز مرچنٹ، رضا ہارون سے دلچسپ سوال اینکر صاحبان ٹی وی پر کر رہے ہیں،چودھری نثار کا رویہ بھی مضحکہ خیز ہے۔ مجھے تو یہ سب ڈرامہ لگتا ہے جسکا مطلب ہے توجہ ہٹائو اور توپوں کا رخ دوسری طرف موڑو، اسلئے حکومت اس مسئلے میں کامیاب ہے ان اداروں کیطرف سے بھی خاموشی ہوگئی ہے اور توجہ ہٹائو کا اصول کامیابجارہا ہے، لوگ مصطفیٰ کمال، گبول، رضا ہارون، انیس قائم خانی کے، ٹی وی پر بے معنی گفتگو کیطرف لگ گئے ہیں۔ حکومت کے رویہ سے تو ایسا لگتا ہے کہ بے نظیر بے قصور کے نعروں کیطرح الطاف حسین کو بھی کلین چٹ مل جائیگی۔ نہ منی لانڈرنگ کا جادو رہے گا نہ بھارت سے فنڈ لینے کا مسئلہ رہے گا اور نہ ہی قتل کیس کی وقعت رہیگی ۔ ڈاکٹرعاصم کے کیس میں پولیس کے لکھے ہوئے 161 صفحات کے بیان کی فائل غائب ہو گئی ہے ۔ پولیس کا کہنا کہ وہ بے گناہ اور پراسیکیوٹر کا کہنا کہ وہ گنہگار ہے، مضحکہ خیز ہے۔ لوگ اب عاصم کو بے قصور سمجھنے لگے ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس ایان علی بھی اتنا لمبا کردیا گیا ہے توجہ ہٹائو کے فارمولے پر کہ اس کیس کی نوعیت اور اہمیت کو لوگ بھولتے جا رہے ہیں۔ میثاق جمہوریت بے نظیر اور میاں نوازشریف کے فارمولا پر مکمل عمل درآمد ہو رہا ہے۔ تم ہم کو نہ پکڑنا ہم تم کو نہیں پکڑیں گے۔ سندھ میں پی پی پی کی حکومت رہیگی۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت رہے اور مرکز میں باری باری کا اصول اپنایا جائیگا۔ جب ڈاکٹر تاثیر نے تو خدا سے بھی التجا کی تھی۔
اسے داور حشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
مک مکا کے پرنسپل کیساتھ کسی سیاست دان پر کیچڑ نہیں ڈالنا چاہئے۔ سب اچھا ہے گو اس حمام میں سب ننگے ہیں لیکن گنگا میں نہا کر آئے ہیں اسلئے سب نیک پاک ہیں ہماری پالیسی ہے کہ پاکستان کو درپیش مسئلوں سے چشم پوشی کیجائے اور توجہ ہٹائو پالیسی کے تحت نئے نئے ایشو چلا کر اصل ایشو سے توجہ ہٹائی جائے اور فرار کی پالیسی اختیار کی جائے، خوف ڈر حکمرانوں کے دل میں ضرور ہے لیکن اصل حقیقت سے فرار اور توجہ ہٹائو پالیسی چلا کر لوگوں کی آنکھ میں دھول ڈال کر اپنی باری پوری کرو اور میثاق جمہوریت کے تحت وقت گزارنے کے بعد دوسرے کو باری دے دی جائے۔ ملک جائے جہنم میں اس سے کسی کو سروکار نہیں۔
ہو سکے تو نوشتہ تقدیر بدل دو
نہ ہو تو ستاروں پر اعتبار کرو