لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) ذمہ دار ذرائع کے مطابق قانونی ماہرین نے سابق صدر پرویز مشرف کو ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کی طرف سے جاری ناقابل ضمانت وارنٹ میں گرفتار کرنے اور خصوصی عدالت کی طرف سے31مارچ کو طلبی کے سمن کی بنیاد پر ان کا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈالنے کے قانونی آپشنز کی نشاندہی کی تھی۔ مگر حکومت نے ان آپشنز پر غور کئے بغیر مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال کر ان کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا سیاسی فیصلہ کرنے کو ترجیح دی۔ قانونی حلقے دیگر آپشنز پر غور کئے بغیر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کو عجلت میں کیا گیا ایک ایسا فیصلہ قرار دے رہے ہیں جو مشرف کے خلاف زیر سماعت مقدمات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کے بعض بیانات میں تضاد نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ مشرف کو باہر جانے کی اجازت دینا سیاسی فیصلہ تھا۔ قانونی طور پر سپریم کورٹ کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل خارج ہونے کے بعد اگرچہ حکومت پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی پابند تھی تاہم حکومت کے پاس انتظامی اختیار تھا کہ وہ ٹھوس اور نئی قانونی گرائونڈز پر مشرف کا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈال دے۔ سیئنر وکیل ڈاکٹر عبد الباسط نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ سیاسی فیصلے کرنے کیلئے عدالتی فیصلوں کی غلط تشریح کی جا رہی ہے۔