صحافتی اخلاق کا تقاضا ہے آف دی ریکارڈ محفل میں کی جانے والی گفتگو کو کسی سے منسوب کر کے منظر عام پر نہیں لایا جا تا بلکہ ضرورتاً یا بالواسطہ طور پر خاص تاثر کو اجاگر کیا جا سکتا ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے صحافیوں کالم نگاروں اور اینکر پرسنز سے گزشتہ دنوں ہوئی ملاقات کو آف دی ریکارڈ کا جامہ پہنایا گیا البتہ ملک کی موجودہ معاشی و اقتصادی صورتحال کے حوالے سے جو بلا شبہ اطمینان بخش نہیں ہے اس حوالے سے اسحاق ڈار کے بارے میں تاثر بھی زیادہ مثبت نہیں ہے ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے خطرہ سے دو چار محسوس کیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آصف زرداری اور عمران خان کے مقابلے میں بعض حوالوں سے میں میاں نواز شریف کو ان سے بہتر سمجھتا ہوں اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ان کی حکومت کے دوران اقتصادی ، معاشی پالیسیاں نتیجہ خیزی کے حوالے سے متاثر کن نہیں رہیں ان پالیسیوں کے خالق اسحاق ڈار کو کسی دباﺅ کے بغیر کھل کر کام کرنے کا موقع ملا اسے میری کوتاہ نظری قرار دیا جا سکتا ہے وہ ماہر معاشیات کی حیثیت نہیں منوا سکے ان کی جانب سے معیشت کے استحکام اور ترقی کے دعویٰ ضرور بار بار کئے گئے ان دعوﺅں کو کھلے دل سے تسلیم کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کی مالیاتی، معاشی، اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات پڑتے، بیرونی و اندرونی قرضوں کے بوجھ میں قابل ذکر کمی ہوتی اور ملکی برآمدات کا حجم بہت زیادہ نہیں تو کم از کم درآمدات سے ایک دو فیصلہ ہی کم ہو جاتیں عالمی بنک اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے لئے ان کی ایسی شرائط ماننا مجبوری نہ بنتا جن سے عوام کے مسائل و مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسحاق ڈار جو آج بھی وزیر خزانہ ہیں وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کتنے ہی خوشنما رنگ رکھتے ہوں عوامی سطح پر پذیرائی سے محروم ہیں۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کیا ان پالیسیوں کے کریڈٹ ڈس کریڈٹ سے حکومتی سربراہ ہونے کے ناطے میاں نواز شریف اپنا دامن بچا سکیں گے۔ ؟
گزشتہ چار ماہ کے دوران اسٹیٹ بنک کی جانب سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی دو مرتبہ کمی کی گئی پاکستانی مارکیٹ میں پیر کے روز ڈالر ایک سو دس روپے پچاس پیسے کا تھا لیکن منگل کو اچانک پانچ روپے کے اضافے سے ایک سو پندرہ روپے پچاس پیسے کا ہو گیا۔ گزشتہ برس دسمبر میں بھی کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں اضافے کے پیش نظر ڈالر کی قیمت میں پانچ فیصد اضافہ ہواتھا جس سے زر مبادلہ کے ذخائر کو سخت دھچکا لگا آج ملک جس سنگین اقتصادی صورتحال سے دو چار ہے اور قومی معیشت جس دباﺅ کا شکار نظر آ رہی ہے یہ اسحاق ڈار کی مرتب کردہ اقتصادی و معاشی پالیسیوں کا شاخسانہ ہی ہے، اس صورتحال میں مارکیٹ، ذرائع کے ان دعوﺅں میں وزن محسوس کیا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے سے قرضوں کی ادائیگی کیلئے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے وعدے کئے گئے تھے آئندہ دنوں میں صرف آئی ایم ایف کو قرضوں اور سود کی مد میں تین ارب ڈالر ادا کرنے ہیں ڈالر کی قدر میں اضافہ سے قرضے کی قسط اور سود ادا کرنے کی حکومت کو وقتی طور پر ضرور سہولت حاصل ہو جائے گی لیکن ملکی معیشت پر اس کے خوفناک اثرات کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا اس کے نتیجے میں پٹرول اور دیگر اشیاءکی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے عام آدمی کی مشکلات میں دو چند اضافہ نہ ہوا تو یہ بہت بڑا معجزہ ہو گا۔
میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران ان سطور پر متعدد بارتوجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی کہ میگا پراجیکٹ بے شک ملک و قوم کے روشن ترین مستقبل کی ضمانت ہیں لیکن عام لوگوں کو گلی محلوں کی سطح پر درپیش مسائل کا حل بھی ترجیحات میں اول درجہ پانا چاہیے۔ ایک تحریر ’ترجیحات میاں صاحب ترجیحات“کے عنوان سے میں عرض کیا گیا تھا کہ ملک کے بڑے حصے میں لاہور‘ کراچی جیسے بڑے شہروں سمیت عام آدمی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جس سے ہیپاٹائٹس اور جلدی سمیت دیگر امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ دودھ جیسی شیرخوار بچوں کی غذا میں کیمیکلز کی آمیزش جس کا نتیجہ ہسپتالوں میں گنجائش سے زائد مریضوں کی آمد ہے۔ اس طرح شہروں کے اندر سفری سہولتیں بھی عدم توجہی کا شکار ہیںاور مہنگائی نے غریب اور نچلے متوسط طبقہ کے لئے پریشان کن صورت پیدا کر رکھی ہے۔
جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے اس کے ارکان نے جس بھرپور اتفاق رائے سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں کئی بار اضافے کئے عوام کے مسائل کے حوالے سے اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا آج ملک جس سنگین اقتصادی، معاشی صورتحال کا شکار ہے وزیراعظم کسی وفاقی و صوبائی وزیر اور کسی رکن اسمبلی و سینٹ کی جانب سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں کسی کا اعلان سامنے نہیں آیا نہ ہی 2013ءکے بعد سے پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں کے دوران ایسی اقتصادی و معاشی پالیسی بنائی گئی جس سے عام لوگوں کو ریلیف مل سکے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول اور اس سلسلے میں شرائط کے مطابق گیس، بجلی اور پٹرول سمیت مختلف اشیاءپر ٹیکسوں کی بھرمار کا لامتناعی سلسلہ نظر آتا ہے۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ یقیناً عام پاکستانی کے لئے پریشان کن ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملکی قومی پیداوار، تجارتی، مالی خسارہ میں اضافہ ہوا۔ زرمبادلہ کے ذخائر 18.5 ارب سے کم ہو کر 12.8 ارب ڈالر رہ گئے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2023ء میں یہ اس سطح پر پہنچ جائیں گے کہ ایک ماہ کی درآمدات کے بھی متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ اس طرح بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ ایک کھرب سے متجاوز ہے۔ (ن) لیگ کے موجودہ دور میں 550 ارب کا اضافہ ہوا۔ دریں اثنا 2018-19ءمیں شدید مالیاتی زوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے اشارہ ہے کل قومی پیداوار میں جاری خسارہ 4.4 فیصد ہو جائے گا جس کے نتیجے میں اندرونی و بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے لئے زرمبادلہ کی دستیابی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ادھر یہ حکومتی بدانتظامیوں کا شاخسانہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور انہیں تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں کا گردشی قرضہ ایک نئے بحران کی خبر دے رہا ہے جہاں تک برآمدات اور درآمدات کا تعلق ہے جولائی سے جنوری برآمدات کی شرح میں سال بہ سال 11 فیصد اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں اضافہ کی شرح 19 فیصد ہے۔
آرمی چیف نے معیشت کی زبوں حالی کا نوٹس لیا ہے تو ملکی سلامتی کے ذمہ دار ادارہ کے سر براہ کی حیثیت سے یہ غیر فطری نہیں ہے کیونکہ آج دفاع اور جنگ محض ہتھیاروں کے ذریعہ ممکن نہیں بلکہ مضبوط معیشت ہی ملکی دفاع و سالمیت کی ضمانت ہے اس حوالے سے سویت یونین سبق آموز مثال ہے جو کمزور معیشت کے باعث امریکہ سے زیادہ خطر ناک ہتھیار رکھنے کے باوجود خود کو انہدام سے نہیں بچا سکا تھا۔
آرمی چیف کی محفل میں زبوں حال معیشت کی باز گشت
صحافتی اخلاق کا تقاضا ہے آف دی ریکارڈ محفل میں کی جانے والی گفتگو کو کسی سے منسوب کر کے منظر عام پر نہیں لایا جا تا بلکہ ضرورتاً یا بالواسطہ طور پر خاص تاثر کو اجاگر کیا جا سکتا ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے صحافیوں کالم نگاروں اور اینکر پرسنز سے گزشتہ دنوں ہوئی ملاقات کو آف دی ریکارڈ کا جامہ پہنایا گیا البتہ ملک کی موجودہ معاشی و اقتصادی صورتحال کے حوالے سے جو بلا شبہ اطمینان بخش نہیں ہے اس حوالے سے اسحاق ڈار کے بارے میں تاثر بھی زیادہ مثبت نہیں ہے ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے خطرہ سے دو چار محسوس کیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آصف زرداری اور عمران خان کے مقابلے میں بعض حوالوں سے میں میاں نواز شریف کو ان سے بہتر سمجھتا ہوں اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ان کی حکومت کے دوران اقتصادی ، معاشی پالیسیاں نتیجہ خیزی کے حوالے سے متاثر کن نہیں رہیں ان پالیسیوں کے خالق اسحاق ڈار کو کسی دباﺅ کے بغیر کھل کر کام کرنے کا موقع ملا اسے میری کوتاہ نظری قرار دیا جا سکتا ہے وہ ماہر معاشیات کی حیثیت نہیں منوا سکے ان کی جانب سے معیشت کے استحکام اور ترقی کے دعویٰ ضرور بار بار کئے گئے ان دعوﺅں کو کھلے دل سے تسلیم کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کی مالیاتی، معاشی، اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات پڑتے، بیرونی و اندرونی قرضوں کے بوجھ میں قابل ذکر کمی ہوتی اور ملکی برآمدات کا حجم بہت زیادہ نہیں تو کم از کم درآمدات سے ایک دو فیصلہ ہی کم ہو جاتیں عالمی بنک اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے لئے ان کی ایسی شرائط ماننا مجبوری نہ بنتا جن سے عوام کے مسائل و مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسحاق ڈار جو آج بھی وزیر خزانہ ہیں وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کتنے ہی خوشنما رنگ رکھتے ہوں عوامی سطح پر پذیرائی سے محروم ہیں۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کیا ان پالیسیوں کے کریڈٹ ڈس کریڈٹ سے حکومتی سربراہ ہونے کے ناطے میاں نواز شریف اپنا دامن بچا سکیں گے۔ ؟
گزشتہ چار ماہ کے دوران اسٹیٹ بنک کی جانب سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی دو مرتبہ کمی کی گئی پاکستانی مارکیٹ میں پیر کے روز ڈالر ایک سو دس روپے پچاس پیسے کا تھا لیکن منگل کو اچانک پانچ روپے کے اضافے سے ایک سو پندرہ روپے پچاس پیسے کا ہو گیا۔ گزشتہ برس دسمبر میں بھی کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں اضافے کے پیش نظر ڈالر کی قیمت میں پانچ فیصد اضافہ ہواتھا جس سے زر مبادلہ کے ذخائر کو سخت دھچکا لگا آج ملک جس سنگین اقتصادی صورتحال سے دو چار ہے اور قومی معیشت جس دباﺅ کا شکار نظر آ رہی ہے یہ اسحاق ڈار کی مرتب کردہ اقتصادی و معاشی پالیسیوں کا شاخسانہ ہی ہے، اس صورتحال میں مارکیٹ، ذرائع کے ان دعوﺅں میں وزن محسوس کیا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے سے قرضوں کی ادائیگی کیلئے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے وعدے کئے گئے تھے آئندہ دنوں میں صرف آئی ایم ایف کو قرضوں اور سود کی مد میں تین ارب ڈالر ادا کرنے ہیں ڈالر کی قدر میں اضافہ سے قرضے کی قسط اور سود ادا کرنے کی حکومت کو وقتی طور پر ضرور سہولت حاصل ہو جائے گی لیکن ملکی معیشت پر اس کے خوفناک اثرات کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا اس کے نتیجے میں پٹرول اور دیگر اشیاءکی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے عام آدمی کی مشکلات میں دو چند اضافہ نہ ہوا تو یہ بہت بڑا معجزہ ہو گا۔
میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران ان سطور پر متعدد بارتوجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی کہ میگا پراجیکٹ بے شک ملک و قوم کے روشن ترین مستقبل کی ضمانت ہیں لیکن عام لوگوں کو گلی محلوں کی سطح پر درپیش مسائل کا حل بھی ترجیحات میں اول درجہ پانا چاہیے۔ ایک تحریر ’ترجیحات میاں صاحب ترجیحات“کے عنوان سے میں عرض کیا گیا تھا کہ ملک کے بڑے حصے میں لاہور‘ کراچی جیسے بڑے شہروں سمیت عام آدمی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جس سے ہیپاٹائٹس اور جلدی سمیت دیگر امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ دودھ جیسی شیرخوار بچوں کی غذا میں کیمیکلز کی آمیزش جس کا نتیجہ ہسپتالوں میں گنجائش سے زائد مریضوں کی آمد ہے۔ اس طرح شہروں کے اندر سفری سہولتیں بھی عدم توجہی کا شکار ہیںاور مہنگائی نے غریب اور نچلے متوسط طبقہ کے لئے پریشان کن صورت پیدا کر رکھی ہے۔
جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے اس کے ارکان نے جس بھرپور اتفاق رائے سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں کئی بار اضافے کئے عوام کے مسائل کے حوالے سے اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا آج ملک جس سنگین اقتصادی، معاشی صورتحال کا شکار ہے وزیراعظم کسی وفاقی و صوبائی وزیر اور کسی رکن اسمبلی و سینٹ کی جانب سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں کسی کا اعلان سامنے نہیں آیا نہ ہی 2013ءکے بعد سے پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں کے دوران ایسی اقتصادی و معاشی پالیسی بنائی گئی جس سے عام لوگوں کو ریلیف مل سکے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول اور اس سلسلے میں شرائط کے مطابق گیس، بجلی اور پٹرول سمیت مختلف اشیاءپر ٹیکسوں کی بھرمار کا لامتناعی سلسلہ نظر آتا ہے۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ یقیناً عام پاکستانی کے لئے پریشان کن ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملکی قومی پیداوار، تجارتی، مالی خسارہ میں اضافہ ہوا۔ زرمبادلہ کے ذخائر 18.5 ارب سے کم ہو کر 12.8 ارب ڈالر رہ گئے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2023ء میں یہ اس سطح پر پہنچ جائیں گے کہ ایک ماہ کی درآمدات کے بھی متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ اس طرح بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ ایک کھرب سے متجاوز ہے۔ (ن) لیگ کے موجودہ دور میں 550 ارب کا اضافہ ہوا۔ دریں اثنا 2018-19ءمیں شدید مالیاتی زوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے اشارہ ہے کل قومی پیداوار میں جاری خسارہ 4.4 فیصد ہو جائے گا جس کے نتیجے میں اندرونی و بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے لئے زرمبادلہ کی دستیابی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ادھر یہ حکومتی بدانتظامیوں کا شاخسانہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور انہیں تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں کا گردشی قرضہ ایک نئے بحران کی خبر دے رہا ہے جہاں تک برآمدات اور درآمدات کا تعلق ہے جولائی سے جنوری برآمدات کی شرح میں سال بہ سال 11 فیصد اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں اضافہ کی شرح 19 فیصد ہے۔
آرمی چیف نے معیشت کی زبوں حالی کا نوٹس لیا ہے تو ملکی سلامتی کے ذمہ دار ادارہ کے سر براہ کی حیثیت سے یہ غیر فطری نہیں ہے کیونکہ آج دفاع اور جنگ محض ہتھیاروں کے ذریعہ ممکن نہیں بلکہ مضبوط معیشت ہی ملکی دفاع و سالمیت کی ضمانت ہے اس حوالے سے سویت یونین سبق آموز مثال ہے جو کمزور معیشت کے باعث امریکہ سے زیادہ خطر ناک ہتھیار رکھنے کے باوجود خود کو انہدام سے نہیں بچا سکا تھا۔