23 مارچ ہماری قومی زندگی، فکر، اور قیام پاکستان میں نہایت اہم دن ہے۔ اور 25 مارچ 1971ءہماری روح کو تڑپانے کے لئے کبھی نہ بھولنے والا دن قرار پا چکا ہے۔ 23 مارچ 1940ءکو قرارداد پاکستان کے ذریعہ جس عظیم مقصد اور نظریہ پر قائد اعظم کی قیادت میں مسلمان یک آواز ہوئے تھے اس کو ہندوسامراج اور بین الاقوامی قوتوں نے شدید زک پہنچائی تھی۔ نظریہ تو ابھی تک قائم ہے اور قائم ہی رہے گا مگر وطن دولخت ہو گیا۔ 25 مارچ 1971ءسے قبل مکتی باہنی اور بھارتی تربیت یافتہ گوریلا فورس نے ہزاروں مغربی پاکستانیوں کو مشرقی پاکستان میں قتل کیا بلکہ ان کی اجتماعی قبریں بھی بنائیں۔ قوانین کی بے حرمتی، ماں باپ کا اولاد کے سامنے قتل عام اور بچوں کے روبرو والدین کا قتل عام بھی معمول بن چکا تھا۔ بھارتی پروپیگنڈہ اور سازشی عناصر کی بدولت یہ اجتماعی قبریں بعدازاں بنگالیوں کی قبریں بتائی گئیں اور افواج پاکستان کو انہی کی بنیاد پر بدنام کرنے کی کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ دنیا بھر میں بنگالی قلمکاروں اور بھارتی لکھاریوں کی کتب عام ہوئیں۔ پاکستان میں سانحہ مشرقی پاکستان پر کوئی تحقیقی کام سنجیدگی کے ساتھ ہوا نظر نہیں آتا۔ چند کتب ضرور موجود ہیں مگر سازشی عناصر کے الزامات کا کوئی جواب موجود نہیں۔
ابھی بہت سارے وہ لوگ موجود ہیں جو اس ظلم و ستم کا شکار بنے جن کے عزیز و اقارب قتل کئے گئے۔ اگر پروفیسر سلیم منور خالد ایسی کتاب مرتب کر سکتے ہیں جو حقائق سے یوں پردہ اُٹھاتی ہے کہ پڑھنے والا کتنا ہی شقی القلب کیوں نہ ہو اس کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اگر ڈاکٹر سجاد سابق وائس چانسلر ڈھاکہ یونیورسٹی حقائق تحریرکر سکتے تھے تو کوئی اور کیوں نہیں۔ یہ کام کرنے کے لئے وطن سے محبت، وسائل اور وقت درکار ہے۔ ایسے لوگوں کا ڈیٹا تو اکٹھا کیا جا سکتا ہے تو پھر وہ ادارے اب تک اس کام کو کرنے اور مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنے کے لئے کیوں آگے نہیں بڑھ رہے۔
بھارت جس انداز سے ہمارے سفارت کاروں ا ور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کر رہا ہے و ہ نہایت افسوس ناک اور سفارتی روایات اور جنیوا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے گوہماری وزارت خارجہ اس پر خاطر خواہ اقدامات اُٹھا رہی ہے مگر یہ بات ہمیں باور کر لینی چاہئے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت نے ریاستی انتخابات میں ہارنا شروع کر دیا ہے اور ان کے پاس مسلم دشمنی اور مسلم کش اقدامات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گو بھارت اپنے سیاسی ماحول میں پاکستان پر الزامات اور وہاں موجود ہمارے عملہ اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ غیر مناسب رویہ اختیار کر کے ہمیں بین الاقوامی سطح پر باوجود یہ کہ بھارتی لابی بہت مضبوط ہے اپنی ہرممکن کوشش کرتے رہنا چاہئے اور اس کے لئے ملک کے اندر سے بھی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ ہمیں بھارتی سیاست کے اندر کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی ہم کرتے ہیں ہماری سیاست میں بھارت کے ساتھ معاملات کو کبھی اول ترجیح نہیں دی گئی اور نہ ہی کبھی یہ ہماری سیاست کا انداز ہو گا۔ بھارت کے ساتھ معاملات کی نوعیت ہماری قومی زندگی میں ایک اہم معاملہ ضرور ہے مگر پاکستان کی خودداری، استحکام، بقا، غیر جانب داری اور دوسروں کے ساتھ معاملات ہم بھارت کی پالیسی کے تابع تو کبھی نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ، سیاست دان، دانشور، سفارت کار جن کو بھارت عزیز ہے ان کو چاہئے کہ وہ پاکستان سے متعلق اپنے خیالات سے قوم و ملک کو آگاہ کر دیں کیونکہ ہمارے قومی انتخابات بہت قریب ہیں اور عوام کو صورتحال جاننے کا پورا حق حاصل ہے۔ جو دانشوربھارت کے ساتھ تعلقات چاہتے ہیں وہ بھی اور جو نہیں چاہتے وہ بھی اگر اپنے الیکشن منشور میں صراحت کے ساتھ صورتحال واضح کر دیں گے تو ہماری اپنی سیاست کے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ تو کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ہم بھارت کے ساتھ حالت جنگ میں رہیں۔ مگر بھارتی اقدامات کا خاطرخواہ جواب نہ دیا جائے یہ بھی ممکن نہیں چونکہ 23 مارچ 1940ءکو یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ ہم اب مزید اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ قرارداد لاہور تین آئینی مراحل سے گزر کر منظور ہوئی تھی اور اس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھی۔ قائداعظم نے 21 ستمبر کو گاندھی کے خط کے جواب میں تحریر کیا تھا کہ”ہم کسی خطہ ارضی کے لئے حق آزادی نہیں مانگتے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمان ایک مستقل اور جداگانہ قوم ہیں جو اپنا حق خودارادی منوانا چاہتے ہیں اور یہ ہمارا پیدائشی حق ہے۔ آپ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ حق خودارادی کسی زمین کے ٹکڑے کے لئے مخصوص ہے۔ ہمارا نقطہ نظر نہیں کہ ہندوستان کا کوئی حصہ ہندوستان سے علیحدہ ہونا چاہتا ہے بلکہ ہندوستان کے مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں۔ جو اپنا حق خودارادی مانگ رہے ہیں تاکہ ہندوستان تقسیم کر کے اپنے لئے دو خودمختار اور ساورن سٹیٹس وضع کی جائیں“
قائداعظم کبھی خون خرابہ پسند نہ کرتے تھے۔ یہ درست ہے کہ وہ ہندو لیڈرشپ کو آزمانا چاہتے تھے مگر ہندو لیڈرشپ نے یہ خود بھی ثابت کر دیا تھا کہ وہ کبھی بھی اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتے کہ ان پر اعتبار کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے قائد کی بصیرت اور دوراندیشی کے نتیجہ میں آزادی حاصل کر لی۔ بھارت اپنی سازشیں کرتا رہا اور اب بھی کر رہا ہے۔ مشرقی پاکستان اور کشمیر کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ اندیشہ ہے کہ چونکہ بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے انتخابات آگے پیچھے ہوں گے اور افغانستان کی صورت حال بھی مستحکم نہیں۔ اس لئے نئے تجربات ان عناصر کو ایک بار پھر موقع فراہم کر سکیں گے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ بین الاقوامی صورت حال ہمارے لئے کوئی آسانی پیدا نہیں ہونے دے رہی‘ معیشت بھی دگرگوں ہے۔ روپے پر اب کسی کا کنٹرول نہیں‘ بیرونی قرضوں کا تناسب بھی خراب ہوتا جا رہا ہے۔ پانی کی شدید کمی کا بھی کسی کو کوئی احساس نہیں۔ تجارتی خسارہ روزمرہ بڑھ رہا ہے۔ ٹیکس کی کمی پورا نہیں ہو رہی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بھی آگاہی دینے والا کوئی نہیں۔ سیاسی ٹوٹ پھوٹ بہت زیادہ ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔ نئی صف بندی کے جو آثار نظر آ رہے ہیں۔اس کے بھی تقاضے ہیں کہ احتساب ہر ایک کا، ہر سطح ، پر بغیر تفریق اور بغیر اس احساس کے ہو کہ کوئی اُسے سیاسی انتقام نہ کہہ سکے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک بار پھر سی پیک کے بارے اصل صورتحال سے قوم کو پوری طرح آگاہ کر دے۔ کرپشن کے الزامات خواہ مخواہ کسی پر نہ لگائے جائیں اور نہ ہی کسی نئے قانون کے تحت ماضی کی طرح بے شمار سیاستدانوں کو سیاسی عمل سے باہر کریں۔ مگر بددیانت کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد کا راستہ روکنا بھی ضروری ہے۔ چونکہ نئی حکومت کو مسائل کے انبار ہی ورثہ میں ملیں گے۔
شروع میں تاریخ کے اوراق کی وضاحت اور دوسرا رخ دکھانے کے بارے میں نشاندہی اس لئے بھی ضروری ہے کہ کیونکہ اس بار بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں پر انتخابات کے دروازے قانونی طور پر بند کر دیئے گئے ہیں اور پھر کچھ بھی عرصہ تک بنگلہ دیش میں ہمارے خلاف ایک نئی مہم شروع ہونے والی ہے اور اس کا سدباب ہمیں کرنا ہی ہو گا۔
23 مارچ سے 25 مارچ
Mar 25, 2018