23مارچ کو یوم قرار داد پاکستان منایا گیا ۔ قرار داد پاکستان کی روح کو سمجھنا اور سر زمین پاکستان کی بقاءو خوشحالی کیلئے تن من دھن کی قربانی سے دریغ نہ کرنا اصل میں وہ پیرا میٹر ز ہیں جو قرار داد پاکستان 23مارچ کا دن منانے والوں کیلئے اپنا نا ضروری ہیں۔ پاکستانی کہلانے والوں کیلئے لازم ہے کہ وہ پاکستانیت بھی اپنائیں، مگر کیسے ؟ فکر اقبال ؒ اور فرمودات قائد ؒ کی روشنی میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے ، پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے اور عالمی افق پر ایک باوقار قوم کی صورت میں کھڑا کر کے مضبوط و مستحکم بنا کر ملک پاکستان کو آنے والی نسل کو بحفاظت سونپنے کا کام بحسن خوبی انجام دینے کا نام پاکستانیت ہے۔ پاکستانیت اپنانے کا عمل محض حکومتی و افسر شاہی تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کا ہر شہری اور ہر باسی شان پاکستان بنانے اوراسے آگے لیکر چلنے کا ذمہ دار ہے۔ پاکستان انعامات الٰہی سے مالا مال ہے۔ پاکستان کے بیشتر مقامات تو ایسے ہیں کہ جہاں زیر زمین بے انتہا چھپے خزانے جس روز قومی استعمال میں لے آئے گئے تو اس روز ہماری وہ نسلیں بھی قرض دینے والی بن جائیں گی جو اس وقت پیدا ہوتے مقروض بنا دی گئی ہیں۔ بس زرا ہمارے اداروں کی افرادی قوت کی جو وافر و بے انتہاءمو¿ثر ہے کی ہڈ حرامی ختم ہونے کو دیر ہے ہم زرعی ، صنعتی اور تعلیمی انقلاب لا کر بے مثال خوشحال پاکستان کے خواب کی تعبیر بننے میں ایک لمحہ نہ لگائیں گے۔ الحمد اللہ پاکستان کی بنیاد میں ایک ایسا نظریہ موجود ہے کہ جس کی روح کو ہم نے بحیثیت مجموعی ایک قوم اپنا لیا تو ہماری صوبوں اور فرقوں میں بٹی یہ پاسبان حرم قوم اتحاد و یگانگت و بھائی چارے کے مضبوط بندھنوں میں بندھ کر دشمنوں کی طاقت کو بغیر ایٹم بم کے استعمال کئے پسپا کر دیں گے۔ مگر صد افسوس اس وقت پاکستان کو کرپٹ، ہڈ حرام اور پسماندہ قوم سمجھا جا رہا ہے۔ بجلی ، گیس پانی ہماری عوامی ضروریات سے کم پڑ گئے ہیں۔ غربت و جہالت کے اندھیرے ہماری قومی ترقی ملیا میٹ کر رہے ہیں ۔ جرائم و کرائم میں روز بروز اضافہ لمحہ فکر یہ بن چکا ہے۔ باہمی حسد و بغض اور منافقت نے ہماری شجاعت چھین کر ہمیں بزدل بنا دیا ہے مذہب سے دوری اور قومی نظریاتی ضرورتوں سے بے اعتنائی نے ہمیں موقع پرست و مفاد پرست بنا کر غیر قوموں کے آگے مغلوب بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم جو” زبردست“ تھے زیر دست ہو کر رہ گئے ہیں۔ 23مارچ 1940ءکو جو قرار داد منظور کی گئی اس کا مطمع نظر ایک خود مختار آزاد مملکت خدادا کا قیام تھا۔ مسلمانان ہند کیلئے پاک سر زمین شاد باد ، کشور حسین شادباد کا قومی ترانہ دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا اور کلمہ اللہ کے احیاءکا جذبہ ہر دل میں موجزن ہو چکا تھا اسی لئے تو حصول پاکستان کے کٹھن راستے سہل ہو گئے تھے۔
23مارچ1940ءکو جب قرار داد پاکستان پیش کی جا رہی تھی اس و قت پاکستان کا فخر ” نوائے وقت“ کا پہلا شمارہ بھی تقسیم ہو رہا تھا۔ اس لئے 23مارچ روزنامہ نوائے وقت کی سالگرہ کا بھی دن ہے۔ شروع سے آج تک قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی خواہش پر حمید نظامی مرحوم کی زیر ادارت شائع ہونے والا نوائے وقت مجید نظامی مرحوم کی سچائی کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے آج بھی محترمہ رمیزہ نظامی کی سرپرستی میں اپنے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے اور نوائے وقت سے کسی بھی حیثیت میں وابستہ تمام ورکرز اپنی اس وابستگی پہ نازاں ہیں اور مالکان کو آج بھی ” جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے “ کی روایت پہ استقلال سے قائم رہنے پہ مبارکباد پیش کرتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ نوائے وقت کے خرمن پہ بجلیاں گرتی رہیں مگر نوائے وقت کل حمید نظامی و مجید نظامی کے زیر ادارت اور آج رمیزہ نظامی صاحبہ کی سر پرستی میں اپنے مشن و پالیسی سے پیچھے نہ ہٹا۔ آج بھی نوائے وقت کے کروڑوں لورز کے دن کے آغاز نوائے وقت پڑھنے کے ساتھ چائے کے کپ سے ہوتا ہے اور وہ نوائے وقت ہی کو قابل یقین Credibleسمجھتے ہیں۔ کل 24مارچ کو پوری دنیا میں واٹر ڈے بھی منایا گیا۔ اسوقت پانی کی قلت کا مسئلہ گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے زرعی ، صنعتی ، گھریلو اور شہری و دیہاتی سطحوں پر پانی کے استعمال کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ پانی کو آلودہ ہونے سے بچانے ، پانی کے ضیاع کو روکنے اور بارشوں کے زائد پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ کرنے کے سبب ہم پاکستان میں پانی کے حوالے سے شدید عوامی پریشانی میں مبتلا ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کا کام تو ورلڈ بنک و دیگر ذرائع کی امداد و قرضوں سے کر ہی رہے ہیں مگر کالا باغ ڈیم جیسے میگا پراجیکٹس یکسر سیاست کی نذر ہو کر رہ گئے ہیں۔ بھارت نے اگر فریب کاری سے 62ڈیمز بنا کر پاکستان کے حصے کے پانیوں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا تو پاکستان نے خود بھی سست روی ، لا پرواہی اور مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے اپنے ہاں پانی کے ذخیروں انتظام کر کے مستقبل کی بہتری کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ؟ واٹر ڈے کے موقعہ پر ہمیں یاد رکھنا ہے کہ ہمارا فوکس ماضی کی غلطیوں کو سدھارنا اور آنے والی نسلوں کو پانی کے بحران سے نجات دلانے کیلئے بہتر منصوبہ بندی ہونا چاہئے۔
واٹر ڈے کے ساتھ گزشتہ روز انٹر نیشنل ڈاٹر ڈے بھی منایا گیا ۔ راقمہ گزشتہ روز ایک نجی تنظیم کی تقریب میں بطور مہمان خاص مدعو تھی۔ یہ پروگرام ڈاٹر ڈے کے حوالے سے ترتیب دیا گیا تھا۔ پروگرام میں تمام شرکاءنے بیٹی کی پیدائش کو بیٹے کی طرح ویلکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ شرکاءنے بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا۔ یہ بات درست ہے باپ بیٹی اور ماں بیٹی کا رشتہ دنیا کا خوبصورت رشتہ ہے۔ بیٹیوں سے گھروں میں رونق ہوتی ہے ۔ افسوس ، یہ بیٹی کہ جو ساری زندگی اپنے ماں باپ کی ہمدرد اور میکے کی دہلیز کی وفادار رہتی ہے کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا جاتا صد افسوس کہ بھارت اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں سونو گرافی میں بچی کے ظاہر ہو جانے سے ابارشن کرا دینے کے گھمبیر واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے تکلیف دہ واقعات آج کے مہذب معاشروں کے چہروں پر سیاہ دھبہ ہیں۔ ایک ماں جو خود بھی بیٹی ہے کہہ رہی تھی کہ بات صرف اتنی ہے کہ والدین کو بیٹی سے نہیں .... بلکہ زینب ، عائشہ، کائنات اور قندیل کو نوچنے والے گھرو گھر سے باہر پائے جانے والے بھیڑیوں سے ڈر لگتا ہے.... وہ ماں کہہ رہی تھی.... بیٹی تو بہت خوبصورت ہے لیکن اے میری بیٹی تیری تقدیر سے ڈر لگتا ہے۔!!!
پاکستان ڈے ‘ واٹر ڈے اور نوائے وقت کا برتھ ڈے
Mar 25, 2018