آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہونگے

چاروں صوبوں کی زنجیر ٹوٹ گئی مگر مردحُر نے آگے بڑھ کر جلتے پاکستان میں“ پاکستان کھپے کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔ اور بلاول بھٹو نے انتخابات کے بائی کاٹ کے جواب میں ووٹ کے تقدس کی حمایت میں اعلان کیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ لہٰذا ووٹ کے ذریعہ دوبارہ جمہور کا حق حاکمیت بحال ہوا اور آصف زرداری نے آمر کو اقتدار سے بے دخل کرکے ایوان صدر کو جمہوریت سے مزین کیا اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہوئے اور ووٹ کی عزت بحال ہوئی مگر میاں نواز شریف ووٹ کی عزت، جمہور کے حق حاکمیت اور جمہوری اداروں کی بالادستی کے بجائے افتخار چودھری کی بحالی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھ کر جمہوری حکومت پر حملہ آور ہوئے اور پالیمنٹ کے بجائے لشکر کشی کے ذریعہ اپنے مطالبات منوائے۔ تاکہ افتخار چودھری کے ذریعہ حکومت کو کام نہ کرنے دےا جائے خاندان شریفاں60فےصد پاکستان پرحکومت کے باوجود اپوزیشن بنی رہی۔
جمہوری صدر کے خلاف بدزبانی سے سکون نہ ملا تو نادیدہ قوتوں کے بنائے میمو گیٹ، سکینڈل میں کالا کوٹ پہن کر عدالت عظمٰی پہنچے تاکہ ووٹ کے تقدس کو مجروح کرکے جمہوری صدر کو نااہل کروایا جاسکے۔ اور پھر اس سلسلہ کو آگے برھاتے ہوئے منتخب وزیراعظم کوسپریم کورٹ سے نااہل کروایا اور فاتحانہ انداز میں فرمایا کہ ”یہ کوئی حیوانوں کا معاشرہ نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو نہ مانا جائے۔“
اس دوران نادیدہ قوتوں سے رات کے اندھےرے میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان سب کے باوجود جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کر ہی لی۔ 2013کے آر او از کے الیکشن کے ذریعہ افتخار چودھری نے اپنی بحالی کا احسان اُتارنے کی کوشش کی۔ بھاری بھرکم مینڈیٹ نے تکبر کی 7ویں منزل پر پہنچا دیا۔ دھرنوں نے لرزہ طاری کیا تو پارلیمان یاد آ گیا۔ خطرہ ٹلتے ہی دوبارہ رعونت حاوی ہو گئی۔ کبھی ووٹ کی عزت اور ووٹ کے ذریعہ قائم پارلیمان کے وقار کا خیال نہ آیا۔ 1۔ پارلیمنٹ کو کبھی اہمیت نہ دی گئی۔
2۔ خارجہ داخلہ اور معاشی پالیسوں کو پارلیمنٹ سے بالا بالا ہی طے کیا جاتا۔ 3۔ کابینہ کے بجائے خاندان شریفاں فیصلوں کا مرکز رہا۔ 4۔ میثاق جمہوریت جس پر کافی حد تک پیپلز پارٹی عمل کر چکی تھی اُس کی باقی ماندہ شرطوں پر کبھی عمل درآمد نہ کیا۔ 5۔ سیاسی قوتوں کو پھر بے اختیار کیا گیا۔ 6۔ صوبوں کی خود مختاری پر حملہ آور ہوئے۔ 7۔ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفیں پر حملہ آور ہوئے۔ تکبر اور رعونت کا سفر جاری تھا کہ پانامہ اور اقامہ آ گئے۔ سپریم کورٹ کے پہلے فیصلہ پر مٹھائیاں تقسیم ہوئیں دوسرے فیصلہ میں نااہل ٹھہرے تو ووٹ کی عزت کا خیال آ گیا۔
میاں صاحب پاکستان کی تاریخ میں ووٹ کی عزت کو سب سے زیادہ آپ نے پامال کیا ہے تاریخ میں ان گناہوں پر پردہ پوشی ناممکن ہے۔ لہٰذا ان تمام تاریخی حقائق کو تسلےم کرنے اور ان پر قوم اور جمہوری قوتوں سے معافی مانگے بغیر کیسے مان لیا جائے کہ آپ نظریاتی بن کر ووٹ کو عزت دینا چاہتے ہیں۔ کہیں یہ تخت جاتی امراءکے خاندان شریفاں کی بادشاہت کی بحالی کی تحریک تو نہیں ۔
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
............................ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن