یہ تو وہی جگہ ہے

نپولین بونا پارٹ اوائل عمری میں غربت اور خستہ حالی کے دور میں پیرس کے بازار سے گزر رہا تھا کہ ا±سکی نظر سامنے لگے ہوئے بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا ”عاقل دی پامسٹ“۔ وہ خیالوں میں محو بلامقصد سیڑھیاں چڑھ گیا۔ دروازے کی درزوں سے اندر جھانکا تو ایک بوڑھا موم بتی کی روشنی میں کسی نقشے کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ اپنی حیثیت کا احساس کرتے ہی فوراً مڑا کہ کہیں بابا غصہ نہ کھا جائے۔ جلدی میں مڑنے سے ہاتھ سے عصا زمین پر گرا تو شور سن کر بابا نے گرجدار آواز میں کہا کہ کون ہے؟نپولین نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ میں ہوں نپولین بونے پارٹ۔
بابے نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔ واہ بھئی واہ مجھے فرانس کے مستقبل کے نقشے پر تم ہی تم تو دکھائی دیتے ہو، سنو تم بہت بڑے آدمی بنو گے لیکن اپنا نام آج سے نپولین بونا پارٹ لکھا کرو۔نپولین نے نصیحت پلے باندھی اور زمانے کے ساتھ چلتا چلتا محنت، جدوجہد، لگن، منصوبہ بندی اور عقل سے بالآخر فرانسیسی فوجوں کا سپہ سالار بنا اور پھر بادشاہ بن گیا۔ فاتح عالم بننے کے شوق میں روس پر چڑھائی کر دی اور عبرت انگیز شکست سے دوچار ہوا کیونکہ روسی فوج پسپا ہوتے ہوئے سب سایہ دار درخت‘ گھر‘ باغات اور لکڑی جلا گئے ،جس سے نپولین کی فوج برف میں دب گئی۔ اس شکست پر نپولین نے کف افسوس ملتے ہوئے وہ تاریخی فقرہ کہا:۔ ”میں اپنے آپ کو کبھی نہیں بخش سکتا کیونکہ میں پانچ منٹ لیٹ ہوا اور روسی سب کچھ تباہ و برباد کر گئے۔“
جب نپولین روس کے محاذ پر تھا تو بابے عاقل دی پامسٹ کو اس کا خیال آیا۔ ا±س نے فال رَمل پھینکی تو ا±سے نپولین کا ستارہ گردش میں دِکھائی دیا۔ وہ بھاگا میدان جنگ کی طرف ا±س زمانے کا اسلحہ نیزہ بھالایا گولی بابے کو لگی تو ا±س کا کام تمام ہو گیا۔ جب لاشیں ٹھکانے لگائی جا رہی تھیں تو بابے کے ہاتھ میں رقعہ دبا ہوا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا۔”نپولین واپس آجاﺅ تمہارے زوال کے دن شروع ہو گئے ہیں!“۔ فوجیں پسپا ہوتی ہیں تو دشمن کیلئے ہر وہ چیز نابود کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو حملہ آور کیلئے ممدو معاون ہوسکتی ہیں۔ ہٹلر بھی روس پر حملہ کے دوران اسی حکمت عملی کا نشانہ بنا تھا۔ دونوں کی فوجوں اور خوددونوں کا حتمی انجام ایک جیسا ہوا تھا۔
جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت پر شب خون مارا تو اس وقت ڈالر 62 اور فی لٹر پٹرول 54 روپے تھا۔ مشرف نے سیاستدانوں کو ہمدم بنایا، انکے ہم قدم ہوئے تو اپنی چال بھی بھول گئے۔ کالا باغ ڈیم بنانے کا برملا اعلان کیا مگر سیاسی مصلحتیں آڑے آگئیں۔ انکے وزیروں نے سٹیل مل اونے پونے بیچ دی، اس منظرنامے کے پس منظر میں وزیراعظم شوکت عزیز تھے۔ سٹیل مل کے خریداروں میں ایک بھارتی سٹیل ٹائیکون متل بھی تھا جس کے آج کل شوکت عزیز لندن میں منشی ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے کہ کوئی ایک ٹائیکون متل اور کوئی دوسرے سٹیل ٹائیکون جندل کا یار ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سٹیل مل کی سودا کاری روک دی جس کا 22 ارب روپے مُل پڑا تھا۔ اس وقت سٹیل مل میں 11 ارب روپے کا میٹریل موجود تھا، بینک میں آٹھ ارب روپے پڑے تھے، یہ خریدار کے حوالے ہونے تھے، سودے میں ایک لاکھ 86 ہزار ایکڑ اراضی بھی شامل تھی۔ اس پر میڈیا سمیت ہر حلقے میں ایک طوفان بپا ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، یہ سودا کینسل کردیا جس پر حکمران ایلیٹ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ مشرف کو شوکت عزیز نے نہ جانے کیا پٹی پڑھا کر سٹیل مل یوں لاٹھیوں کے گز بیچنے پر آمادہ کرلیا تھا جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر مشرف بھی بپھر گئے۔ عقل سے کام لیتے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی تحسین کرتے جس نے ایک قومی اثاثہ بچا لیا۔ انہوں نے جسٹس افتخار کو اس فیصلے پر غصے میں نکال باہر کیا۔
شوکت عزیز کی وزارت عظمیٰ کے دوران ایسے کئی نامعقول فیصلے کئے گئے جو ق لیگ کی سیاست کے تابوت میں بڑے کیل ثابت ہوئے۔ بدیشی شوکت عزیز اپنے دیس چلے گئے جبکہ مشرف کو پہلے صدارت اور پھر ملک سے ہی جانا پڑا۔ مشرف دور کی بہرحال ایک خوبی کا اعتراف ضروری ہے کہ 12 اکتوبر 99 سے 2008 میں پی پی پی کی حکومت آنے تک ڈالر 62 روپے پر رہا اور پٹرول کی قیمت میں 54 روپے سے 28 روپے تک کمی تو ہوئی، 54 روپے میں اضافہ نہیں ہوا۔
پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے پر مضبوط معیشت بھلے نہ ملی ہو مگر مشرف پاکستان کی آئی ایم ایف سے جان چھڑا کر کشکول ضرور توڑ گئے تھے۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال میں ملک کا جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ مشرف دور میں گیس و بجلی کے نئے منصوبے نہ ہونے کے برابر تھے۔ پی پی پی کے دور میں جو تھے وہ بھی معدوم ہونے لگے۔ جب پی پی پی حکومت کے آخری دن تھے تو بجلی تھی نہ گیس تھی تاہم اربوں کے رینٹل پلانٹ ملک میں آئے مگر بجلی کی پیداوار سے قاصر رہے۔ پی پی کو اپنے پانچ سال کی کارکردگی کا بخوبی علم تھا اس لئے جاتے جاتے ملک کا وہی حال کر دیا جو نپولین کی فوج کے آگے آگے بھاگتے ہوئے روسی فوج نے کیا تھا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو ایک ایک اینٹ جوڑ کر بجلی بحران پر قابو پانے کی کوشش کی جس میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ۔ کشکول توڑنے کے وعدے کئے تھے مگر پی پی پی دور سے دگنا قرض لے لیا۔ پٹرول کی قیمت میں عالمی مارکیٹ کے حساب سے کمی کے مطابق تو ریلیف نہیں ملا تاہم خاطر خواہ کمی ضرور ہوئی۔ ڈالر کی قیمت بھی پی پی پی دور کے مقابلے میں مستحکم رہی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت چاہتی تو پٹرول کی قیمت 116 روپے لیٹر پر بھی برقرار رکھ سکتی تھی۔ سی پیک جیسے منصوبے میٹرو اور موٹرویز اسی حکومت کا خا صہ ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت کیخلاف مظاہروں، دھرنوں اور تحریکوں کے باوجود مثبت پیشرفت جاری رہی، زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا کہ میاں نواز شریف کی نااہلیت در نااہلیت کے فیصلے آنے لگے جس سے سارا منظر نامہ ہی بدلا ہوا محسوس ہونے لگا گو آج بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور ایک پتہ بھی میاں نوازشریف کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا مگر وہ بات نہیں ہے جو انکے خود وزیراعظم ہوتے ہوئے تھی ۔گزشتہ روز میاں نواز شریف نے کہا ”میرے خلاف فیصلے سے ڈالر مہنگا ہو گیا۔ اس روزڈالر115 روپے پرچلا گیا تھا‘ اسی روز وزیر خزانہ رانا افضل نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کو روکا نہیں جا سکتا۔ اسکی قیمت کا تعین مارکیٹ فورسز کرتی ہیں جبکہ اسی حکومت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈارڈالر ماضی میں کو ننانوے روپے پربھی لے آئے تھے۔ رانا افضل ایک اور دور کی کوڑی لائے،کہا۔” ڈالر کا ریٹ ایک سو 112 سے 115 تک مناسب رہے گا۔ ڈالر مہنگا ہونے سے برآمدات بڑھیں گی“۔ برآمدات بڑھانے کا سوکھا حل ڈالر 230 کا کر دیں برآمدات میں سو فیصد اضافہ ہو جائیگا؟
ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے‘ پٹرول کی قیمت میں ہر ماہ اضافے پر اضافہ ہو رہا ہے جس سے مہنگائی کا طوفان تو آنا ہی ہے۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کےخلاف فیصلے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ لگتا ہے ہم پھر اس دور میں آ گئے ہیں جب پی پی پی حکومت کے آخری دن تھے اور ملک کا وہی حال ہو رہا ہے جو رورسی فوج فرانسیسی فوج کے آگے بھاگتے ہوئے اپنے ملک کا کر رہی تھی: یہ تو وہی جگہ ہے۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن